اسپین کے جنوبی شہر سیویل میں اقوام متحدہ کی ترقیاتی فنڈنگ پر کانفرنس کا آغاز ہو گیا ہے، جس میں عالمی عدم مساوات پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔ یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (USAID) کی جانب سے فنڈنگ میں کٹوتی کے بعد ایک بڑا مالی خلا پیدا ہو گیا ہے۔
یہ ایک دہائی میں ایک بار ہونے والی کانفرنس پیر سے جمعرات تک جاری رہے گی، جس کا مقصد بھوک، غربت، موسمیاتی تبدیلی، صحت اور امن جیسے اہم عالمی مسائل سے نمٹنا ہے۔
سیویل میں کم از کم 50 عالمی رہنما جمع ہوئے ہیں، جن میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس، یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور کینیا کے صدر ولیم روٹو شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کاروباری، سول سوسائٹی اور مالیاتی اداروں کے 4,000 سے زائد نمائندے بھی اس چوتھے ایڈیشن میں شرکت کر رہے ہیں۔
تاہم، اس گروپ کا سب سے اہم رکن، امریکہ، ان مذاکرات سے دور ہے کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری میں عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد فنڈنگ میں کمی کا فیصلہ کیا تھا۔ مارچ میں، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے یو ایس ایڈ کے 80 فیصد سے زائد پروگرام منسوخ کر دیے ہیں۔
علاوہ ازیں، جرمنی، برطانیہ اور فرانس بھی نیٹو اراکین پر ٹرمپ کی جانب سے مسلط کردہ دفاعی اخراجات میں اضافے کو پورا کرنے کے لیے اپنی امداد میں کٹوتیاں کر رہے ہیں۔ عالمی ایڈوکیسی گروپ آکسفیم انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ترقیاتی امداد میں یہ کٹوتیاں 1960 کے بعد سب سے بڑی ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی سالانہ ترقیاتی فنانس میں بڑھتے ہوئے خلا کو 4 ٹریلین ڈالر قرار دیا ہے۔
**’سیویل اعلامیہ’**
کانفرنس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ مذاکرات کا بنیادی مرکز 2015 میں ہونے والی آخری میٹنگ میں اپنائے گئے 17 پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) کے لیے مالیات کی تنظیم نو کرنا ہے، جنہیں 2030 تک حاصل کیا جانا ہے۔ لیکن ترقیاتی امداد میں کمی کے ساتھ، پانچ سالوں میں غربت اور بھوک کے خاتمے سمیت ان اہداف کا حصول ناممکن نظر آتا ہے۔
جون کے اوائل میں، نیویارک میں ہونے والے مذاکرات میں ایک مشترکہ اعلامیہ تیار کیا گیا تھا، جس پر سیویل میں دستخط کیے جائیں گے۔ اس میں صنفی مساوات کو فروغ دینے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں اصلاحات کے لیے اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف سے وابستگی کا اظہار کیا گیا ہے۔
زیمبیا کے اقوام متحدہ میں مستقل نمائندے، چولا میلامبو نے کہا کہ یہ دستاویز ظاہر کرتی ہے کہ دنیا ترقیاتی اہداف کے حصول میں حائل مالی چیلنجز سے نمٹ سکتی ہے، ”اور یہ کہ کثیرالجہتی اب بھی کام کر سکتی ہے“۔
تاہم، آکسفیم نے اس دستاویز کو عزائم کی کمی پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ”چند انتہائی امیروں کے مفادات کو باقی سب پر ترجیح دی گئی ہے“۔