بلغراد کی سڑکیں میدانِ جنگ بن گئیں: پولیس کا مظاہرین پر دھاوا، درجنوں گرفتار، صورتحال انتہائی کشیدہ

بلغراد: سربیا میں حکومت مخالف مظاہروں کے ہفتے بھر جاری رہنے والے سلسلے کے بعد پولیس نے دارالحکومت بلغراد کی سڑکوں پر قائم رکاوٹیں ہٹا دی ہیں اور متعدد مظاہرین کو گرفتار کر لیا ہے، جس کے بعد صورتحال مزید کشیدہ ہوگئی ہے۔

پیر کے روز پولیس نے بلغراد کے ضلع زیمون میں ٹریفک بلاک کرنے کے لیے لگائی گئی دھاتی باڑیں اور کوڑے دان کے کنٹینرز ہٹا دیے۔ اس موقع پر درجنوں مظاہرین نے حکومت مخالف نعرے لگائے اور سڑکوں پر واپس آنے کے عزم کا اظہار کیا۔

پولیس نے اپنے ایک بیان میں متعدد افراد کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے لیکن گرفتار شدگان کی صحیح تعداد نہیں بتائی۔ ان گرفتاریوں نے حکومت پر آمرانہ پالیسیوں کا الزام لگانے والے مظاہرین کے غصے کو مزید بھڑکا دیا ہے۔ مظاہرین نے پولیس پر حملہ کرنے یا حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزامات میں گرفتار افراد کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

دوسری جانب، صدر الیگزینڈر ووچک نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کا وعدہ کرتے ہوئے پولیس کی کارروائی کو سراہا ہے۔ پیر کو اسپین کے دورے کے دوران انہوں نے کہا کہ “شہریوں کو پریشان نہیں ہونا چاہیے، ریاست قانون اور نظم و ضبط کو یقینی بنانے کے لیے کافی مضبوط ہے۔”

یہ احتجاجی سلسلہ گزشتہ آٹھ ماہ سے جاری ہے جس کا آغاز نومبر میں نووی ساد شہر میں ایک ریلوے اسٹیشن کی چھت گرنے سے 16 افراد کی ہلاکت کے بعد ہوا تھا۔ اس واقعے کا ذمہ دار ناقص تعمیرات اور بڑے پیمانے پر ہونے والی کرپشن کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔

ہفتے کے روز بلغراد میں ایک لاکھ 40 ہزار سے زائد افراد نے ریلی نکالی، جو حالیہ مہینوں کے سب سے بڑے مظاہروں میں سے ایک تھی۔ مظاہرین صدر ووچک کی دائیں بازو کی حکومت کو ہٹانے کے لیے فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے۔ تاہم، حکام نے مظاہرین کی تعداد کو متنازع بناتے ہوئے کہا کہ صرف 36 ہزار افراد احتجاج کر رہے تھے۔

احتجاج کے دوران پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں بھی ہوئیں، جس میں تقریباً 50 پولیس اہلکار اور 22 مظاہرین زخمی ہوئے۔ پولیس نے پتھراؤ کرنے والے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور مرچوں والا اسپرے بھی استعمال کیا۔ پولیس کے مطابق تقریباً 40 افراد پر فسادات کے الزامات عائد کیے گئے ہیں، جبکہ کم از کم آٹھ یونیورسٹی طلباء کو ریاستی اداروں پر حملوں کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

صدر ووچک نے ہفتے کے احتجاج کو منظم کرنے کا الزام “غیر ملکی طاقتوں” پر عائد کیا اور کہا کہ مظاہرین “سربیا کا تختہ الٹنے” کی کوشش کر رہے تھے لیکن ناکام رہے۔ روس نے بھی ان مظاہروں پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے “کلر ریولوشن” کی کوشش قرار دیا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں