روسی حراست میں 2 آذری شہریوں کی پراسرار ہلاکتیں، آذربائیجان اور روس سفارتی بحران کے دہانے پر، باکو نے انتقامی کارروائی شروع کردی

روس کے شہر یکاترینبرگ میں روسی پولیس کی حراست میں دو آذری شہریوں کی ہلاکت کے بعد آذربائیجان اور روس کے درمیان تعلقات میں شدید کشیدگی پیدا ہوگئی ہے، جس نے ایک بڑے سفارتی بحران کو جنم دیا ہے۔ یہ واقعہ دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے موجود تناؤ میں مزید اضافے کا باعث بنا ہے۔

واقعے کی شروعات 2001 کے ایک قتل کیس سے ہوئی جس کے مشتبہ ملزمان، جو نسلی طور پر آذری تھے، کو روسی حکام نے 24 سال بعد گرفتار کیا۔ گرفتاری کے دوران دو بھائی، ضیاء الدین سفروف اور حسین سفروف، ہلاک ہوگئے۔ روسی پراسیکیوٹرز کے مطابق ایک کی موت ’ہارٹ اٹیک‘ سے ہوئی جبکہ دوسرے کی وجہ موت کا تعین کیا جا رہا ہے۔ روسی حکام نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ افراد ایک ’مجرم گروہ‘ کا حصہ تھے جو دیگر قتل اور 2021 میں 44 افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والی جعلی شراب کی فروخت میں ملوث تھے۔

تاہم، روسی حکام نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ یہ مبینہ ’مجرم‘ اتنے طویل عرصے تک آزاد کیوں رہے اور ان کی گرفتاری اس قدر وحشیانہ انداز میں کیوں کی گئی۔

**آذربائیجان کا روس پر ‘ناقابل قبول تشدد’ کا الزام**

اس واقعے نے ایک سفارتی طوفان برپا کر دیا ہے۔ آذربائیجان کی وزارت خارجہ نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا کہ روسی پولیس اور انٹیلی جنس افسران نے ’ناقابل قبول تشدد‘ کا استعمال کیا جس سے دو بھائی ہلاک اور ان کے رشتہ دار شدید زخمی ہوئے۔

ایک زخمی شخص، محمد سفروف نے آذری میڈیا کو بتایا کہ نقاب پوش افسران نے صبح سویرے ان کے گھر کا دروازہ توڑ دیا، بچوں کو خوفزدہ کیا اور بغیر کوئی سوال کیے ایک گھنٹے تک انہیں مارتے رہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے بزرگ والد کو بھی کئی گھنٹوں تک مارا پیٹا گیا، بجلی کے جھٹکے دیے گئے اور ان دونوں سے یوکرین میں روس کی جنگ لڑنے کے لیے ’رضاکارانہ طور پر‘ شامل ہونے کا مطالبہ کیا گیا۔

اس واقعے کے جواب میں آذربائیجان نے دو روسی انٹیلی جنس افسران کو گرفتار کر لیا، کریملن کے فنڈ سے چلنے والے ایک میڈیا آؤٹ لیٹ کو بند کر دیا اور ماسکو کے زیر اہتمام ثقافتی تقریبات منسوخ کر دیں۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے پیر کو کہا، ”ہمیں ایسے فیصلوں پر دلی افسوس ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ یکاترینبرگ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام سے متعلق ہے اور اسے اس طرح کے ردعمل کی وجہ نہیں بننا چاہیے۔

**کشیدہ تعلقات**

یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پہلے ہی کئی وجوہات کی بنا پر کشیدہ ہیں۔ 2020 میں آذربائیجان نے ترکی کی فوجی مدد سے نگورنو-کاراباخ کا علاقہ واپس حاصل کر لیا تھا، جس سے خطے میں روس کا اثر و رسوخ کم ہوا۔ اس آذری-ترک اتحاد نے ماسکو کے جنوبی قفقاز میں اثر کو ماند کر دیا ہے۔

اس کے علاوہ آذربائیجان کے صدر الہام علییف نے گزشتہ دسمبر میں چیچنیا کے اوپر ایک آذری مسافر طیارے کو مار گرائے جانے کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام بھی روس پر عائد کیا ہے۔ صدر علییف نے 9 مئی کو ماسکو کے ریڈ اسکوائر پر ہونے والی پریڈ میں بھی شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ باکو یوکرین میں آذری مزدوروں کو زبردستی بھرتی کرنے کی کریملن کی مہم کی بھی شدید مخالفت کرتا ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ یکاترینبرگ میں ہونے والا پرتشدد واقعہ روس میں آذری کمیونٹی کو ’خوفزدہ‘ کرنے کی کریملن کی کوششوں کا حصہ ہو سکتا ہے، کیونکہ روس کا اسٹریٹجک اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں