واشنگٹن، ڈی سی – امریکا کی ثالثی میں جمہوری جمہوریہ کانگو (ڈی آر سی) اور روانڈا کے درمیان ایک امن معاہدہ طے پایا ہے جس کا مقصد مشرقی کانگو میں دہائیوں سے جاری اس تنازع کو ختم کرنا ہے جسے دوسری جنگ عظیم کے بعد مہلک ترین قرار دیا جاتا ہے۔ اس معاہدے پر دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے واشنگٹن میں دستخط کیے۔
روانڈا کے وزیر خارجہ اولیویئر ندوہنگیریہ نے اسے ایک ‘اہم موڑ’ قرار دیا، جبکہ ان کی کانگولی ہم منصب تھریس کائیکوامبا ویگنر نے کہا کہ یہ لمحہ ‘بہت انتظار کے بعد’ آیا ہے۔
تاہم، اس سفارتی کامیابی کے جشن کے باوجود، ماہرین اور تنازع سے متاثرہ مقامی آبادی اس معاہدے کے مستقبل کے حوالے سے شدید شکوک و شبہات کا شکار ہے۔ ان خدشات کی بنیادی وجہ معاہدے کی تفصیلات ہیں، جن میں امریکا کے معدنی مفادات اور اہم مسلح گروہوں کی عدم شمولیت جیسے عوامل شامل ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ اس وقت سامنے آیا ہے جب کانگو کے صدر فیلکس تشیسیکیڈی نے امریکا کو معدنیات کے بدلے سکیورٹی کی پیشکش کی تھی۔ اس سے یہ خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ امریکا کی دلچسپی امن قائم کرنے سے زیادہ مشرقی کانگو کی نایاب معدنیات، جیسے ٹینٹلم، سونا، کوبالٹ اور لیتھیم تک رسائی حاصل کرنا ہے، جو ٹیکنالوجی کی صنعت کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ ناقدین کو ڈر ہے کہ یہ ‘امن برائے استحصال’ کا معاہدہ خطے میں مزید تشدد کا باعث بن سکتا ہے۔
معاہدے کی اہم شرائط کے مطابق، کنشاسا اور کیگالی 90 دنوں کے اندر علاقائی اقتصادی انضمام کا فریم ورک اور 30 دنوں میں مشترکہ سکیورٹی میکانزم قائم کریں گے۔ اس کے علاوہ، ڈی آر سی روانڈا کی آزادی کے لیے ڈیموکریٹک فورسز (FDLR) نامی مسلح گروہ کو غیر مسلح کرے گا، جس کے بعد روانڈا ڈی آر سی کے اندر اپنے ‘دفاعی اقدامات’ ختم کر دے گا۔
تاہم، اس معاہدے کا سب سے کمزور پہلو M23 باغی گروہ کی عدم شمولیت ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، روانڈا اس گروہ کی حمایت کرتا ہے، جس نے مشرقی کانگو کے بڑے شہروں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اگرچہ قطر کی ثالثی میں M23 کے ساتھ الگ سے بات چیت جاری ہے، لیکن اس معاہدے میں ان کی غیر موجودگی اس کی کامیابی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
ایک روانڈن سیاسی مبصر، گاٹیٹے نیرینگابو نے الجزیرہ کو بتایا کہ ‘یہ معاہدہ M23 سے متعلق نہیں ہے۔ کیگالی کی ترجیح FDLR کا خاتمہ ہے’۔
دوسری جانب، کانگو کے لیے FDLR کو غیر مسلح کرنا ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، اگر کنشاسا ایسا کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو یہ ایک غیر فعال ریاست کے تاثر کو تقویت دے گا۔
کانگو کے نوبل انعام یافتہ ڈینس مکویگے نے اس معاہدے کو ‘خودمختاری کا شرمناک سرنڈر’ قرار دیا ہے جو غیر ملکی قبضے اور استحصال کو قانونی حیثیت دیتا ہے۔ کئی مبصرین نے اس عمل میں مقامی کانگولی عوام اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کو شامل نہ کرنے پر بھی شدید تنقید کی ہے، جو ماضی میں بھی امن کی کوششوں کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ رہی ہے۔
سیو دی کانگو نامی تنظیم کے بانی واوا ٹمپا نے کہا، ‘مجھے اس معاہدے سے کوئی امید نہیں ہے۔ یہ ان درجنوں معاہدوں سے مختلف نہیں جو ماضی میں کیے گئے۔’ انہوں نے مزید کہا کہ ‘امن کا آغاز انصاف سے ہوتا ہے، اور انصاف کے بغیر امن یا استحکام ممکن نہیں۔’