ٹرمپ کا ایلون مسک پر بڑا حملہ: ’سبسڈی بند تو تمہاری دکان بند‘، تحقیقات کا عندیہ دیتے ہی کھلبلی مچ گئی!

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ارب پتی ایلون مسک کے درمیان متنازع ٹیکس بل پر جاری عوامی تنازع شدید ہوگیا ہے، صدر ٹرمپ نے ایلون مسک کی کمپنیوں بشمول ٹیسلا اور اسپیس ایکس کو ملنے والی حکومتی سبسڈی کا جائزہ لینے کی دھمکی دے دی ہے۔

منگل کی صبح اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ٹروتھ سوشل’ پر ایک پوسٹ میں صدر ٹرمپ نے لکھا، ‘ایلون کو شاید تاریخ میں کسی بھی انسان سے زیادہ سبسڈی ملتی ہے، اور سبسڈی کے بغیر ایلون کو شاید اپنی دکان بند کرکے جنوبی افریقہ واپس جانا پڑے گا۔ کوئی راکٹ لانچ نہیں، کوئی سیٹلائٹ نہیں، اور نہ ہی الیکٹرک کاروں کی پیداوار، اور ہمارا ملک ایک بڑی رقم بچائے گا۔ شاید ہمیں DOGE (محکمہ برائے حکومتی استعداد) کو اس پر گہری نظر ڈالنے کو کہنا چاہیے؟ بڑی رقم بچائی جا سکتی ہے!!!’

صدر ٹرمپ کا یہ بیان ایلون مسک کی جانب سے اس بڑے ٹیکس کٹوتی اور اخراجاتی بل پر دوبارہ تنقید کے بعد سامنے آیا ہے، جسے وائٹ ہاؤس 4 جولائی تک قانون بنانا چاہتا ہے۔ مسک نے حکومتی اخراجات میں کمی کے وعدے پر مہم چلانے کے بعد اس بل کی حمایت کرنے والے قانون سازوں کو عہدے سے ہٹانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔

اس بیان کے فوراً بعد، امریکی سینیٹ نے منگل کو معمولی اکثریت سے ٹرمپ کے ٹیکس کٹوتیوں اور اخراجاتی بل کو منظور کرلیا۔ ووٹ 50-50 سے برابر رہے، جس کے بعد نائب صدر جے ڈی وینس نے فیصلہ کن ووٹ کاسٹ کیا۔

**ٹرمپ اور مسک کے درمیان محاذ آرائی**

ٹرمپ کے ساتھ یہ تنازع ایلون مسک کی کاروباری سلطنت، بشمول ٹیسلا، کے لیے بڑی رکاوٹیں کھڑی کر سکتا ہے۔ امریکی محکمہ ٹرانسپورٹیشن گاڑیوں کے ڈیزائن کو ریگولیٹ کرتا ہے اور یہ فیصلہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا کہ آیا ٹیسلا بغیر پیڈل اور اسٹیئرنگ وہیل کے روبوٹیکسی بڑے پیمانے پر تیار کر سکتی ہے یا نہیں۔ جبکہ مسک کی راکٹ کمپنی اسپیس ایکس کے پاس تقریباً 22 ارب ڈالر کے وفاقی معاہدے ہیں۔

اس سے قبل جون کے اوائل میں بھی جب دونوں شخصیات کے درمیان تعلقات خراب ہوئے تھے تو ٹرمپ نے مسک کے حکومتی معاہدے ختم کرنے کی دھمکی دی تھی۔ غیر جانبدار تجزیہ کاروں کے مطابق، اس بل سے امریکی قرضوں میں تقریباً 3 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہوگا۔

کئی ہفتوں کی خاموشی کے بعد، مسک نے ہفتے کو دوبارہ بحث میں حصہ لیا اور اس بل کو ‘بالکل پاگل پن اور تباہ کن’ قرار دیا۔ پیر کو انہوں نے مزید کہا کہ جن قانون سازوں نے اخراجات میں کمی کی مہم چلائی لیکن بل کی حمایت کی، ‘انہیں شرم سے سر جھکا لینا چاہیے! اور اگر یہ اس زمین پر میرا آخری کام ہوا تو بھی وہ اگلے سال اپنی پرائمری ہار جائیں گے۔’

یہ تنقید ایک ڈرامائی تبدیلی ہے کیونکہ اس سے قبل ارب پتی مسک نے ٹرمپ کی دوبارہ انتخابی مہم پر تقریباً 300 ملین ڈالر خرچ کیے تھے اور انتظامیہ کے متنازع ‘DOGE’ اقدام کی قیادت بھی کی تھی۔

**مفادات کا ٹکراؤ اور مارکیٹ کا ردعمل**

ایلون مسک پر ‘DOGE’ کی سربراہی کے دوران مفادات کے ٹکراؤ کے الزامات لگتے رہے ہیں، جن میں ان پر ان سرکاری ایجنسیوں کو نشانہ بنانے کا الزام تھا جو ان کے اور ان کی کمپنیوں کے خلاف تحقیقات کر رہی تھیں۔ پبلک سٹیزن نامی تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق، مسک نے جن ایجنسیوں میں کٹوتیاں کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ان میں سے 70 فیصد وہ تھیں جو ٹیسلا، نیورالنک (ان کی برین چپ کمپنی) کے خلاف تحقیقات کر رہی تھیں۔

ٹرمپ کی دھمکی کے بعد مارکیٹ نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ٹیسلا کے اسٹاک میں تقریباً 6 فیصد کمی واقع ہوئی، جبکہ گزشتہ پانچ دنوں میں یہ 13 فیصد تک گر چکا ہے۔ جے پی مورگن نے گزشتہ ماہ ایک نوٹ میں کہا تھا کہ الیکٹرک وہیکل (EV) ٹیکس کریڈٹ ختم کرنے سے ٹیسلا کو سالانہ 1.2 ارب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔

ویڈبش سیکیورٹیز کے سینئر تجزیہ کار ڈین آئیوس نے الجزیرہ کو بتایا کہ ‘یہ صورتحال اب ایک سوپ اوپرا بن چکی ہے جو ٹیسلا کے اسٹاک پر ایک بوجھ بنی ہوئی ہے، کیونکہ سرمایہ کاروں کو خدشہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ مسک سے متعلق امریکی حکومتی اخراجات پر مزید سختی اور جانچ پڑتال کرے گی۔’

اپنا تبصرہ لکھیں