پشاور: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی خیبرپختونخوا شاخ میں اختلافات اس وقت مزید گہرے ہوگئے جب پارٹی کے صوبائی صدر جنید اکبر خان اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے ترجمان کے درمیان لفظی جنگ چھڑ گئی، جس سے پارٹی کی اعلیٰ قیادت میں تقسیم واضح ہوگئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، اس تنازع کا آغاز اس وقت ہوا جب جنید اکبر نے صوبائی حکومت پر انہیں کمزور کرنے اور ان کے حامیوں کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے حق میں ریلی نکالنے والے اراکین اسمبلی سے منسلک ترقیاتی اسکیمیں منسوخ کردی گئیں اور وزیراعلیٰ فعال طور پر ان کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے حکومتی ترجمان اور وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف پر ’اسٹیبلشمنٹ کا بیانیہ‘ فروغ دینے کا بھی الزام لگایا۔
اس کے جواب میں بیرسٹر سیف نے جنید اکبر کی شکایات کو مسترد کرتے ہوئے تندوتیز جواب دیا اور کہا کہ ’’جنید اکبر کو چاہیے کہ وہ شکوے شکایتیں بند کرکے گھر بیٹھ جائیں۔‘‘
انہوں نے مشورہ دیا کہ جنید اکبر کو اپنے عہدے سے مستعفی ہوکر کسی ’قابل‘ شخص کے لیے جگہ بنانی چاہیے تاکہ وہ صوبے میں پی ٹی آئی کی قیادت کرسکے۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ انہوں نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے صرف ان کی درخواست پر ملاقات کی تھی اور اگر انہیں اس کے برعکس کہا گیا تو وہ ان کے فیصلے کا احترام کریں گے۔ انہوں نے جنید اکبر پر ذمہ داریاں پوری نہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اسے ان کی مایوسی کی بنیادی وجہ قرار دیا۔
سیف نے مزید کہا، ’’جو کام کرتے ہیں وہ شکایتیں نہیں کرتے۔ ایسے وقت میں جب پارٹی مشکل دور سے گزر رہی ہے، جنید اکبر کو رونے اور دوسروں پر الزام تراشی کے بجائے قیادت کا ساتھ دینا چاہیے۔‘‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر اکبر کو وزیراعلیٰ گنڈاپور سے کوئی مسئلہ ہے تو اسے عوامی تنقید کے بجائے اندرونی طور پر حل کیا جانا چاہیے۔
بیرسٹر سیف نے دیگر سیاسی پیش رفت پر تبصرہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما امیر مقام کی امیدوں کو بھی مسترد کردیا کہ ان کے بھائی، اپوزیشن لیڈر عباد اللہ خان، گزشتہ عام انتخابات میں وزیراعلیٰ بن جاتے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ صوبائی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور تمام اراکین اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے لیے متحد ہیں۔