ایران کا دھماکہ خیز اعلان: عالمی ایٹمی ایجنسی سے تعاون معطل، صدر نے قانون پر دستخط کردیے، خطے میں خطرے کی گھنٹیاں بج گئیں!

تہران: ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے ایک قانون پر دستخط کر دیے ہیں، جس سے تہران اور اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ فیصلہ گزشتہ ماہ ایران کی اہم ترین جوہری تنصیبات پر امریکہ اور اسرائیل کے حملوں کے بعد کیا گیا ہے۔

ایرانی سرکاری ٹی وی نے بدھ کو رپورٹ کیا کہ “مسعود پزشکیان نے عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے قانون کا نفاذ کر دیا ہے۔”

یہ اقدام ایرانی پارلیمنٹ کی جانب سے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کی قانون سازی کی منظوری کے ایک ہفتے بعد سامنے آیا ہے۔ پارلیمنٹ نے اس کی وجہ 13 جون کو اسرائیل اور بعد میں امریکہ کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر کیے گئے حملوں کو قرار دیا تھا۔

اس قانون کے مطابق، آئی اے ای اے کے انسپکٹرز ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کی منظوری کے بغیر جوہری تنصیبات کا دورہ نہیں کر سکیں گے۔

اس ہفتے کے اوائل میں ایران کے وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی کا ملک میں خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔ ایرانی حکام نے گروسی پر حالیہ 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیلی اور امریکی حملوں کی مذمت نہ کرنے پر شدید تنقید کی ہے۔ حکام نے 12 جون کو آئی اے ای اے بورڈ کی جانب سے منظور کی گئی اس قرارداد پر بھی گروسی کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس میں تہران پر جوہری ذمہ داریاں پوری نہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ایرانی حکام کے مطابق یہ قرارداد اسرائیلی حملوں کے لیے ایک “بہانہ” تھی۔

ایران نے آئی اے ای اے کے سربراہ گروسی کی جانب سے جنگ کے دوران بمباری کا نشانہ بننے والی جوہری تنصیبات کے دورے کی درخواست بھی مسترد کر دی ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے پیر کو ایکس پر کہا، “حفاظتی اقدامات کی آڑ میں بمباری زدہ مقامات کے دورے پر گروسی کا اصرار بے معنی اور ممکنہ طور پر بدنیتی پر مبنی ہے۔ ایران اپنے مفادات، عوام اور خودمختاری کے دفاع میں کوئی بھی قدم اٹھانے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔”

واضح رہے کہ 12 روزہ جنگ کا آغاز اس وقت ہوا جب اسرائیل نے ایرانی جوہری تنصیبات اور فوجی ٹھکانوں پر اچانک بمباری کی اور کئی اعلیٰ فوجی کمانڈروں اور جوہری سائنسدانوں کو قتل کر دیا۔ تہران نے جواب میں اسرائیل پر میزائلوں اور ڈرونز کی بارش کر دی۔ 22 جون کو اسرائیل کے اتحادی امریکہ نے بھی ایران کی فورڈو، اصفہان اور نطنز میں موجود جوہری تنصیبات پر اپنی نوعیت کے پہلے حملے کیے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان 24 جون کو جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا۔

ایرانی عدلیہ کے ترجمان اصغر جہانگیر کے مطابق، ایران پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 935 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 132 خواتین اور 38 بچے شامل تھے۔ جبکہ ایرانی جوابی حملوں میں اسرائیل میں 28 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکی حملوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو “تباہ” کر دیا ہے، تاہم نقصان کی اصل نوعیت واضح نہیں ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ عراقچی نے تسلیم کیا ہے کہ جوہری تنصیبات کو “سنگین” نقصان پہنچا ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ “بمباری کے ذریعے ٹیکنالوجی اور سائنس کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔”

اپنا تبصرہ لکھیں