بینکاک، تھائی لینڈ – تھائی حکومت نے صرف تین سال قبل بڑے دھوم دھام سے بھنگ کو قانونی قرار دینے کے بعد اب اس پالیسی پر اچانک یو-ٹرن لے لیا ہے، جس سے ملک کی اربوں ڈالر کی بھنگ انڈسٹری اور اس سے وابستہ ہزاروں افراد کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔
حکومت نے نئے قوانین نافذ کیے ہیں جن کے تحت اب بھنگ کی کلیوں (buds) کی فروخت کے لیے ڈاکٹر کا نسخہ لازمی قرار دیا گیا ہے، جس کا مقصد تفریحی استعمال کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ یہی تفریحی مارکیٹ ملک بھر میں پھیلی ہزاروں ڈسپنسریوں کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ وزیر صحت سومسک تھیپسوتھن نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ بھنگ کو 45 دنوں کے اندر دوبارہ منشیات کی فہرست میں شامل کر دیا جائے گا، جس کے بعد یہ کوکین اور ہیروئن جیسی منشیات کے زمرے میں آ جائے گی۔
اس فیصلے کے بعد بینکاک کے مشہور علاقے نانا میں واقع ‘ونڈر لینڈ’ جیسی بڑی بھنگ کی دکانوں پر بھی گاہکوں کا رش ختم ہو گیا ہے۔ دکان کے اسسٹنٹ مینیجر نینیوفت کیتیچائیباوان نے الجزیرہ کو بتایا کہ پہلے جہاں ایک گھنٹے میں درجنوں گاہک آتے تھے، اب ڈاکٹر کی موجودگی کے باوجود صرف ایک یا دو گاہک ہی آتے ہیں۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر یہی صورتحال رہی تو انہیں اپنا کاروبار بند کرنا پڑ سکتا ہے، جس سے ان جیسے کئی لوگوں کا روزگار چھن جائے گا۔
حکومتی ترجمان جیریو ہونگسب کے مطابق، اس پالیسی کا مقصد بھنگ کے استعمال کو صرف طبی مقاصد تک محدود کرنا ہے، جو 2022 میں اسے قانونی قرار دیتے وقت اصل ہدف تھا۔ حکومت نے قانونی حیثیت دینے کے بعد نوجوانوں میں منشیات کے زیادہ استعمال اور اسمگلنگ میں اضافے جیسے مسائل کو اس فیصلے کی وجہ قرار دیا ہے۔
تاہم، بھنگ کے کاشتکاروں اور دکانداروں کا کہنا ہے کہ حکومت مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہے اور یہ اقدام سیاسی انتقام کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر حکومت موجودہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرواتی تو ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا تھا۔ چوکان چوپاکہ، جو ایک ڈسپنسری کی مالک ہیں، کہتی ہیں کہ اس فیصلے سے بہت سے چھوٹے کاروبار تباہ ہو جائیں گے جنہوں نے اپنی تمام جمع پونجی اس کام میں لگائی تھی۔
نئے قوانین سے کاشتکار بھی شدید پریشان ہیں۔ اب ہر فارم کو حکومت سے ‘گڈ ایگریکلچر اینڈ کلیکشن پریکٹس’ (GACP) سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہوگا، جو ایک مہنگا اور طویل عمل ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے صرف بڑی کارپوریشنز ہی مارکیٹ میں رہ جائیں گی اور چھوٹے کسان ختم ہو جائیں گے۔
بھارتی سیاح شاہ نے کہا کہ وہ اور ان کے دوست اچھی بھنگ کے لیے ہی تھائی لینڈ آتے ہیں، اور اگر حکومت نے سختی کی تو وہ اگلی بار کسی اور ملک کا رخ کریں گے۔
ماہرین اور کاروباری افراد خبردار کر رہے ہیں کہ اس پابندی سے بھنگ کی صنعت ختم نہیں ہوگی بلکہ زیر زمین چلی جائے گی، جس سے اسے کنٹرول کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔ رتھاپون سنرک، جو ایک فارم اور ڈسپنسری کے مالک ہیں، کا کہنا ہے کہ لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والے پروڈیوسرز اپنا کاروبار غیر قانونی طور پر جاری رکھیں گے۔ انہوں نے سینکڑوں دیگر کسانوں اور دکانداروں کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا بھی منصوبہ بنایا ہے۔