غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کے مطابق، اسرائیلی افواج نے گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران “26 خونی قتل عام” کرتے ہوئے 300 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے۔
جمعرات کو طلوعِ آفتاب کے بعد سے کم از کم 30 افراد شہید ہوچکے ہیں۔ طبی ذرائع نے الجزیرہ کو بتایا کہ جنوب میں المواسی میں ایک خیمے پر اسرائیلی حملے میں 13 افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ غزہ شہر کے مغرب میں بے گھر افراد کو پناہ دینے والے مصطفیٰ حافظ اسکول پر حملے میں مزید 11 افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔
جمعرات کو جاری کردہ سرکاری میڈیا آفس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران حملوں میں پناہ گاہوں اور بے گھر افراد کے مراکز میں موجود شہریوں کو نشانہ بنایا گیا، جہاں ہزاروں کی تعداد میں بے گھر افراد موجود تھے۔ اس کے علاوہ عوامی مقامات، گھروں میں موجود فلسطینی خاندانوں، بازاروں، اہم شہری تنصیبات اور بھوک سے تنگ آکر خوراک تلاش کرنے والے شہریوں کو بھی ہدف بنایا گیا۔
دوسری جانب، غزہ میں امدادی سامان کی تقسیم کے مقامات پر تعینات امریکی کنٹریکٹرز بھوکے فلسطینیوں پر براہ راست گولیاں اور سٹن گرینیڈز استعمال کر رہے ہیں۔
130 سے زائد انسانی حقوق کی تنظیموں، بشمول آکسفیم، سیو دی چلڈرن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے متنازعہ اسرائیلی اور امریکی حمایت یافتہ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور اس پر بھوکے فلسطینیوں پر حملوں میں سہولت کاری کا الزام عائد کیا ہے۔
جب سے GHF نے مئی کے آخر میں کام شروع کیا ہے، امداد کی تلاش میں 600 سے زائد فلسطینی شہید اور تقریباً 4,000 زخمی ہو چکے ہیں۔
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق، اسرائیل کی غزہ پر جنگ میں اب تک کم از کم 56,647 افراد شہید اور 134,105 زخمی ہو چکے ہیں۔
**جنگ بندی کی کوششیں**
حماس کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں عارضی جنگ بندی کے لیے نئی تجاویز کا مطالعہ کر رہی ہے، لیکن اس نے اس بات پر اصرار کیا کہ وہ ایک ایسے معاہدے کی خواہاں ہے جو اسرائیل کی تباہ کن جنگ کا خاتمہ کرے۔
حماس نے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ اسے ثالثوں کی جانب سے تجاویز موصول ہوئی ہیں اور وہ جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کے لیے ان کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔
یہ اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل نے غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی کی تجویز پر اتفاق کیا ہے اور حماس پر زور دیا کہ وہ حالات مزید خراب ہونے سے پہلے اس معاہدے کو قبول کر لے۔
الجزیرہ کی نامہ نگار کے مطابق، جنگ کے آغاز کے بعد پہلی بار اسرائیلی ممکنہ طور پر جنگ کے خاتمے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو ٹرمپ کے دباؤ کی وجہ سے لچک کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔