پشاور: سانحہ سوات کی تحقیقات کرنے والی انسپکشن ٹیم کے چیئرمین نے پشاور ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ حالیہ سانحے میں متعدد سرکاری محکموں کی غفلت پائی گئی ہے۔
جمعرات کو سماعت کے دوران، متعلقہ حکام دریائے سوات میں سیاحوں کے ڈوبنے کے واقعے کی جاری تحقیقات پر اپ ڈیٹس فراہم کرنے کے لیے عدالت میں پیش ہوئے۔
چیئرمین نے عدالت کو بتایا کہ انکوائری میں واضح طور پر محکموں کی غفلت سامنے آئی ہے۔ اس پر پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد ابراہیم خان نے حکم دیا کہ تمام ذمہ دار افراد کی شناخت میں تاخیر نہ کی جائے۔
یاد رہے کہ یہ واقعہ جمعہ کو اس وقت پیش آیا جب سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے 17 افراد پکنک مناتے ہوئے دریائے سوات میں اچانک آنے والے سیلابی ریلے میں بہہ گئے تھے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی دلخراش ویڈیوز میں خاندان کو زمین کے ایک تیزی سے سکڑتے ہوئے ٹکڑے پر پھنسے ہوئے دیکھا گیا، جو تقریباً ایک گھنٹے تک مدد کے لیے پکارتے رہے لیکن کوئی فوری مدد نہ پہنچ سکی۔ اب تک 12 لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔
جسٹس خان نے کمشنر ہزارہ فیاض علی شاہ سے استفسار کیا کہ انہوں نے ہزارہ میں سیاحوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں اور طبی ہنگامی صورتحال کے لیے کیا انتظامات موجود ہیں۔ کمشنر شاہ نے جواب دیا کہ سیاحتی علاقوں میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے، تجاوزات کے خلاف مہم جاری ہے اور نتھیا گلی اسپتال میں اضافی عملہ تعینات کیا گیا ہے۔
عدالت نے سانحہ سوات کے بعد ہنگامی تیاریوں کے نئے اقدامات کے بارے میں دریافت کیا۔ جسٹس خان نے پوچھا کہ اگر کوئی اور بحران پیدا ہوتا ہے تو کیا فوری بچاؤ کے لیے ڈرون تعینات کیے جا سکتے ہیں۔ کمشنر شاہ نے جواب دیا کہ لائف جیکٹس پہنچانے کی صلاحیت رکھنے والے ڈرون خرید لیے گئے ہیں۔ عدالت نے ہدایت کی کہ ان ڈرونز کا فوری طور پر تجربہ کیا جائے، مشقیں کی جائیں اور ان کے رسپانس ٹائم کا جائزہ لیا جائے تاکہ آپریشنل تیاری کو یقینی بنایا جا سکے۔
چیف جسٹس نے مزید ہدایت کی کہ سیاحوں کو محفوظ ماحول فراہم کیا جائے۔ آر پی او ہزارہ نے عدالت کو یقین دلایا کہ پولیس اور ریسکیو ایجنسیاں اس مقصد کے لیے قریبی رابطہ کاری کر رہی ہیں۔ عدالت نے کمشنر اور آر پی او مالاکنڈ دونوں کو سانحہ سوات کی مکمل تحقیقات سمیت تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا۔
دوسری جانب، ڈائریکٹر جنرل ریسکیو 1122 خیبرپختونخوا، شاہ فہد، سانحہ سوات کی انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ ان سے واقعے کے دوران ان کی موجودگی اور سیلاب میں پھنسے لوگوں کو بچانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی تفصیلات پوچھی گئیں۔
شاہ فہد نے بتایا کہ وہ اس وقت پشاور میں تھے۔ 27 جون کو سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے سوات بھر میں ریسکیو آپریشن شروع کیے گئے، جس میں درجنوں افراد کو بچایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایمرجنسی کال صبح 9:45 پر موصول ہوئی اور ایک ایمبولینس روانہ کی گئی، تاہم ابتدائی کال کی نوعیت سے سیلابی ایمرجنسی کا اشارہ نہیں ملتا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ غوطہ خور، کشتیاں اور دیگر ریسکیو کا سامان موقع پر بھیجا گیا۔ مینگورہ بائی پاس روڈ کے قریب دریائے سوات سے تین سیاحوں کو بچایا گیا۔ انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ واقعے میں ملوث ریسکیو اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے اور اندرونی انکوائری جاری ہے۔