انصاف کا ترازو الٹ گیا؟ برطانیہ میں گلوکاروں پر اسرائیل مخالف نعروں پر مقدمہ، نسل کشی میں مدد پر کوئی پابندی نہیں!

لندن: برطانیہ میں غزہ پر حکومتی پالیسی اور ترجیحات شدید تنقید کی زد میں ہیں، جہاں ایک طرف اسرائیلی فوج کے خلاف نعرے لگانے والے گلوکاروں کو مجرمانہ تفتیش کا سامنا ہے، وہیں دوسری طرف حکومت اسرائیل کو مبینہ طور پر نسل کشی میں استعمال ہونے والے جنگی طیاروں کے پرزے فراہم کرنے کے اپنے حق کا دفاع کر رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، مشہور گلاسٹنبری فیسٹیول کے دوران چند برطانوی ریپرز نے اپنی پرفارمنس میں اسرائیلی فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے نعرے لگائے تھے۔ اس واقعے کے بعد ان گلوکاروں کے خلاف مجرمانہ تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے، جس سے ملک میں آزادی اظہار رائے پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

اس کے برعکس، برطانوی حکومت عدالت میں اس بات کے لیے لڑ رہی ہے کہ وہ اسرائیل کو جنگی طیاروں کے پرزوں کی فروخت جاری رکھ سکے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ پرزے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں، جسے کئی عالمی ادارے اور ماہرین نسل کشی قرار دے رہے ہیں۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، اس صورتحال نے برطانیہ کے دوہرے معیار کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ایک طرف فنکاروں کو احتجاج کرنے پر قانونی کارروائی کا سامنا ہے، تو دوسری طرف ایک ایسے ملک کو عسکری مدد فراہم کی جا رہی ہے جس پر جنگی جرائم کے سنگین الزامات ہیں۔ ثریا لینی کے مطابق، یہ صورتحال برطانیہ کی ترجیحات پر سنگین سوالات اٹھاتی ہے کہ کیا انسانی حقوق سے زیادہ اہم تجارتی اور سیاسی مفادات ہیں؟

اس تضاد نے برطانیہ کے اندر اور عالمی سطح پر اس کے مؤقف کو متنازع بنا دیا ہے، اور غزہ کے معاملے پر اس کی پالیسیوں کی شفافیت اور اخلاقی بنیادوں پر شدید جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں