امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پیش کردہ نیا پالیسی بل، جسے ’ون بگ بیوٹی فل بل ایکٹ‘ کا نام دیا گیا ہے، ایک بڑی بحث کو جنم دے چکا ہے۔ اس بل کا بنیادی مقصد ٹیکسوں میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کرنا ہے، جس کا سب سے زیادہ فائدہ امیر ترین امریکیوں کو پہنچنے کا امکان ہے۔
بل کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ ٹیکسوں میں کمی سے معاشی ترقی کی رفتار تیز ہوگی اور ملک میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام سرمایہ کاری کو فروغ دے گا جس سے بالآخر پوری معیشت کو فائدہ پہنچے گا۔
تاہم، اس بل پر شدید تنقید بھی کی جا رہی ہے، یہاں تک کہ کچھ ریپبلکنز نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ناقدین کے مطابق، ٹیکس کٹوتیوں کا خرچ پورا کرنے کے لیے میڈیکیڈ، فوڈ اسٹیمپس اور طلبہ کے قرضوں سمیت اہم وفاقی اخراجات میں کمی کی جائے گی، جس کا براہ راست اثر لاکھوں غریب اور متوسط طبقے کے امریکی شہریوں پر پڑے گا۔
غیر جانبدار کانگریشنل بجٹ آفس نے تخمینہ لگایا ہے کہ اس بل کی منظوری کی صورت میں آئندہ دہائی کے دوران امریکی قومی قرض میں تقریباً 3.3 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ بل معاشی ترقی کے بجائے ملک کو قرضوں کے ایک ایسے بھنور میں دھکیل دے گا جس سے نکلنا مشکل ہو جائے گا۔
اس رپورٹ میں کینیڈا کی جانب سے امریکی ٹیک کمپنیوں پر ڈیجیٹل ٹیکس ختم کرنے کے فیصلے اور نائیجیریا میں ہونے والی ٹیکس اصلاحات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔