ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ تہران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) پر کاربند ہے، اور ان قیاس آرائیوں کو مسترد کر دیا ہے کہ ایران اپنی جوہری اور دیگر تنصیبات پر اسرائیل اور امریکہ کے بڑے حملوں کے جواب میں اس معاہدے سے دستبردار ہو جائے گا۔
جمعرات کو عباس عراقچی نے یہ بھی کہا کہ ایران اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے، بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ اپنے سیف گارڈز معاہدے کا احترام کرے گا، حالانکہ حال ہی میں ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کرنے کا قانون منظور کیا گیا ہے۔
آئی اے ای اے اور این پی ٹی پر دستخط کرنے والے ممالک کے درمیان سیف گارڈز معاہدے اقوام متحدہ کی ایجنسی کو اس بات کو یقینی بنانے کی اجازت دیتے ہیں کہ ممالک کے جوہری پروگرام پرامن رہیں۔
عراقچی نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا، ”ایران این پی ٹی اور اس کے سیف گارڈز معاہدے پر کاربند ہے۔“
انہوں نے مزید کہا، ”اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ہماری جوہری تنصیبات پر غیر قانونی حملوں کے نتیجے میں مجلس (پارلیمنٹ) کی نئی قانون سازی کے مطابق، آئی اے ای اے کے ساتھ ہمارا تعاون واضح حفاظتی اور سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ذریعے کیا جائے گا۔“
یہ واضح نہیں ہے کہ یہ تعاون کیسے آگے بڑھے گا یا آئی اے ای اے کے انسپکٹرز کو ایران کی جوہری تنصیبات تک کب اور کیسے رسائی دی جائے گی۔
عراقچی کا یہ تبصرہ جرمن وفاقی وزارت خارجہ کے اس بیان کے جواب میں تھا جس میں آئی اے ای اے کے خلاف ایرانی قانون سازی کو ایک ”تباہ کن پیغام“ قرار دیا گیا تھا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے جرمنی کی تنقید پر سخت ردعمل کا اظہار کیا، جو اسرائیل کے سب سے پرعزم اتحادیوں میں سے ایک ہے اور جس نے گزشتہ ماہ ایران کے خلاف حملوں کی حمایت کی تھی۔
اسرائیلی حملوں کے عروج پر، جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے تجویز دی تھی کہ جرمنی اور مغرب اس جنگ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا، ”یہ گندا کام ہے جو اسرائیل ہم سب کے لیے کر رہا ہے۔“
جمعرات کو عراقچی نے ”ایران پر اسرائیل کے غیر قانونی حملے، بشمول محفوظ جوہری تنصیبات، کی جرمنی کی واضح حمایت کو ‘مغرب کی جانب سے کیا جانے والا گندا کام’ قرار دیتے ہوئے اس کی سرزنش کی۔“
انہوں نے برلن پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ ایران سے صفر افزودگی کا مطالبہ کر کے تہران کے ساتھ 2015 کے کثیر الجہتی جوہری معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں سے مکر رہا ہے۔
عراقچی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ”ایرانی پہلے ہی غزہ میں نسل کشی کی جرمنی کی نازی طرز کی حمایت اور صدام کی ایران پر جنگ میں کیمیائی ہتھیاروں کے لیے مواد فراہم کرنے کی حمایت سے ناراض تھے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ ”ایران پر بمباری کی واضح جرمن حمایت نے اس تصور کو ختم کر دیا ہے کہ جرمن حکومت ایرانیوں کے لیے بدنیتی کے علاوہ کچھ اور رکھتی ہے۔“
واضح رہے کہ جرمنی اور دیگر یورپی ممالک نے ایران کے ساتھ حالیہ 12 روزہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت کی تھی، جس میں جوہری سائنسدانوں اور ان کے اہل خانہ سمیت سینکڑوں ایرانی شہری اور اعلیٰ فوجی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ امریکہ بھی گزشتہ ماہ اسرائیلی مہم میں شامل ہوا، اور تین ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری کی۔
امریکی اور اسرائیلی حملوں کے بعد ایرانی جوہری پروگرام کی حالت غیر واضح ہے۔ بدھ کو پینٹاگون نے کہا کہ امریکی بمباری آپریشن نے ایران کے جوہری پروگرام کو ایک سے دو سال پیچھے کر دیا ہے۔ لیکن آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے حال ہی میں کہا کہ ایران ”مہینوں کے اندر“ دوبارہ یورینیم کی افزودگی شروع کر سکتا ہے۔