مردان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے گزشتہ ہفتے دریائے سوات میں پیش آنے والے اس المناک واقعے کی روداد سنائی ہے جس میں ان کے دو بچوں، 12 سالہ دانیال اور 6 سالہ ایشال سمیت کم از کم 16 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔
نصیر احمد نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی بے بسی اور کرب کا اظہار کیا جب وہ اور ان کے اردگرد موجود دیگر لوگ دریائے سوات کے تیز بہاؤ میں پھنسے سیالکوٹ اور مردان کے دو خاندانوں کے 17 افراد کو بچانے میں ناکام رہے۔
انہوں نے بتایا کہ ”میں نے صبح 10 بجکر 3 منٹ پر ریسکیو 1122 کو کال کی اور مجھے بتایا گیا کہ ایک ریسکیو گاڑی تقریباً ایک گھنٹہ پہلے روانہ کردی گئی ہے، تاہم، دریا کے قریب کوئی بھی موجود نہیں تھا۔“
روتے ہوئے نصیر احمد نے کہا کہ ”میں بھاگ کر دریا کی طرف واپس گیا اور اپنے بچوں کو دیکھا، میں ان کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ وہاں بہت بری حالت میں کھڑے تھے۔“
ان کا کہنا تھا کہ ایک ریسکیو گاڑی موقع پر پہنچی جس میں صرف ایک رسی تھی۔ ”میں نے ان سے سوال کیا کہ اب کیا کریں؟ لیکن انہوں نے کہا کہ ان کے پاس اور کچھ نہیں ہے۔ وہ گاڑی رسی وہیں چھوڑ کر چلی گئی۔“
غمزدہ والد نے بتایا کہ وہ مدد کے لیے ادھر ادھر بھاگتے رہے اور کئی بار ریسکیو 1122 کو کال کی، لیکن انہیں کوئی جواب نہیں ملا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 30 منٹ بعد ایک بڑی گاڑی موقع پر پہنچی، تاہم، اس میں بھی جان بچانے کا کوئی سامان جیسے کشتیاں اور لائف جیکٹس نہیں تھیں۔
”میں نے ان سے سوال کیا… آپ یہاں کیوں ہیں؟ اب آپ کو میرے ساتھ مل کر رونا چاہیے اور میری اور یہاں موجود دوسرے لوگوں کی طرح بے بسی سے انہیں (ڈوبتے ہوئے) دیکھنا چاہیے۔“
نصیر احمد نے بتایا کہ وہ دوپہر 12 بجے تک اپنے بچوں کو پانی کے بے رحم تھپیڑوں کے درمیان پھنسے ہوئے دیکھتے رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے دوسرے پھنسے ہوئے خاندان کا ایک فرد بھی ان کے ساتھ کھڑا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ گھنٹوں مدد کے لیے پکارنے کے باوجود متعلقہ حکام میں سے کوئی بھی ان کی مدد کو نہیں آیا۔ خوفناک لمحات کو یاد کرتے ہوئے نصیر احمد نے بتایا کہ سیالکوٹ کے خاندان کے تمام 10 افراد ایک ایک کرکے پانی میں ڈوبتے رہے۔
یہ واقعہ 27 جون کو پیش آیا جب ڈسکہ اور مردان سے تعلق رکھنے والے دو مختلف خاندانوں کے 17 افراد دریا کنارے پکنک مناتے ہوئے اچانک پانی کے تیز بہاؤ میں بہہ گئے تھے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی دلخراش ویڈیوز میں خاندان کو تیزی سے سکڑتے ہوئے زمین کے ایک ٹکڑے پر پھنسے ہوئے اور تقریباً ایک گھنٹے تک مدد کے لیے پکارتے ہوئے دکھایا گیا تھا لیکن فوری طور پر کوئی امداد نہ پہنچ سکی۔ اب تک 12 لاشیں نکالی جا چکی ہیں، چار کو بچا لیا گیا ہے جبکہ ایک شخص تاحال لاپتہ ہے۔