غزہ جنگ بندی پر سسپنس برقرار، حماس کا دیگر فلسطینی دھڑوں سے اہم مشاورتی اجلاس، فیصلہ کن اعلان سے قبل کیا شرط رکھ دی؟

فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے کہا ہے کہ وہ غزہ کے لیے جنگ بندی کی تازہ ترین تجویز پر مختلف فلسطینی دھڑوں کے ساتھ مشاورت کر رہی ہے، جبکہ محصور پٹی پر اسرائیل کی مسلسل بمباری 21ویں مہینے میں داخل ہو گئی ہے۔

جمعہ کو حماس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا: “ہمارے لوگوں کے خلاف صیہونی جارحیت کو ختم کرنے اور انسانی امداد کی آزادانہ رسائی کو یقینی بنانے کے عزم کے تحت، تنظیم برادر ثالثوں سے موصول ہونے والی تجویز پر فلسطینی قوتوں اور دھڑوں کے رہنماؤں سے مشاورت کر رہی ہے۔”

بیان میں مزید کہا گیا کہ “مشاورت مکمل ہونے کے بعد تنظیم ثالثوں کو حتمی فیصلہ پیش کرے گی اور اس کا باضابطہ اعلان کیا جائے گا۔”

حماس کے قریبی ایک ذریعے نے بتایا کہ تنظیم اس بات کی ضمانت چاہتی ہے کہ امریکہ کی حمایت یافتہ جنگ بندی کی نئی تجویز، جس کی تفصیلات پر ابھی کام جاری ہے، غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی پر مبنی جنگ کے خاتمے کا باعث بنے گی اور اسرائیل کو کسی بھی وقت جنگ بندی توڑ کر اپنی جنگ جاری رکھنے کی اجازت نہیں دے گی۔

دوسری جانب، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ 24 گھنٹوں کے اندر فلسطینی گروپ حماس سے جواب کی توقع کر رہے ہیں کہ آیا وہ جنگ بندی کے لیے ان کی ‘حتمی تجویز’ کو قبول کریں گے یا نہیں۔ ٹرمپ اگلے ہفتے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی میزبانی کرنے کی بھی تیاری کر رہے ہیں۔

ٹرمپ نے جمعرات کو کہا تھا کہ “میں غزہ کے لوگوں کے لیے تحفظ چاہتا ہوں۔ وہ جہنم سے گزرے ہیں۔” جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اب بھی چاہتے ہیں کہ امریکہ فلسطینی علاقے پر قبضہ کر لے، جیسا کہ انہوں نے فروری میں اعلان کیا تھا، تو ٹرمپ نے کہا، “میں چاہتا ہوں کہ غزہ کے لوگ محفوظ رہیں، یہ زیادہ اہم ہے۔” واضح رہے کہ ٹرمپ کی اس تجویز کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی تھی۔

اس سے قبل دو ماہ کی جنگ بندی اس وقت ختم ہوگئی تھی جب 18 مارچ کو اسرائیلی حملوں میں 400 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے تھے، جسے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے “ایک ظالمانہ جنگ کا سفاک ترین مرحلہ” قرار دیا تھا۔ اس جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے اب تک 6,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔

7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کے بعد شروع ہونے والی جنگ سے اب تک 57,000 سے زائد فلسطینی اسرائیلی حملوں میں شہید ہوچکے ہیں، لاکھوں افراد بار بار بے گھر ہوئے، شہر اور قصبے تباہ کردیے گئے، ہسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا، اور اقوام متحدہ کے مطابق، محصور اور بمباری زدہ علاقے کا 85 فیصد حصہ اب اسرائیلی فوجی کنٹرول میں ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں