بھارت کی پاکستان کیخلاف ’نئی سرخ لکیر‘: کیا ثبوت ہیں یا جنگ کا بہانہ؟ ششی تھرور کے تہلکہ خیز انکشافات

الجزیرہ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں، بھارت کی مرکزی اپوزیشن جماعت کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے پاکستان کے خلاف اپنی حکومت کی نئی جارحانہ پالیسی پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ بھارت نے ایک ‘نئی سرخ لکیر’ کھینچنے کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت اس کے بقول پاکستان سے ہونے والی ہر دہشت گردی کی کارروائی کو جنگی اقدام تصور کیا جائے گا۔

یہ ڈرامائی تبدیلی اس سال مئی میں ہونے والی ایک مختصر لیکن شدید جھڑپ کے بعد سامنے آئی ہے۔ بھارت کا مؤقف ہے کہ اس نے اپنے ردعمل کا معیار بدل دیا ہے، لیکن پاکستان اسے ایک ‘نیا غیر معمولی’ اقدام قرار دے رہا ہے، جس سے خطے میں کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ہے۔ دونوں جوہری پڑوسی ممالک ماضی میں کئی جنگیں لڑ چکے ہیں، اور اس نئی پالیسی نے مستقبل کے ممکنہ تنازعات کی نوعیت کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔

الجزیرہ کے پروگرام ‘دی انڈیا رپورٹ’ میں صحافی سرینیواسن جین سے بات کرتے ہوئے ششی تھرور نے اس بات پر شکوک کا اظہار کیا کہ آیا بھارت کے پاس کشمیر میں ہونے والے حملے کا الزام پاکستان پر لگانے کے لیے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا بھارت کی اس ‘نئی سرخ لکیر’ کو کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے، خاص طور پر جب ثبوتوں کی شفافیت پر سوالیہ نشان ہوں۔ ششی تھرور، جو بھارت کے عالمی تعلقات کا ایک اہم چہرہ رہے ہیں، کے اس بیان نے نئی دہلی کی پالیسی پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

یہ انٹرویو الجزیرہ کی ایک خصوصی سیریز کا حصہ ہے جس میں سرحد کے دونوں اطراف کی اہم شخصیات سے بات کی گئی ہے۔ اس سیریز میں پاکستان کے بلاول بھٹو زرداری کا انٹرویو بھی شامل ہے تاکہ دونوں ممالک کے مؤقف کو جامع طور پر سمجھا جا سکے۔ اس سیریز کا مقصد یہ جانچنا ہے کہ بھارت کا یہ ‘نیا معمول’ دونوں ممالک کے لیے کیا معنی رکھتا ہے اور کیا اس سے خطے میں امن قائم ہوگا یا مزید عدم استحکام پیدا ہوگا۔

ششی تھرور کے انٹرویو نے بھارت کی پاکستان پالیسی کے گرد موجود ابہام کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ پالیسی ٹھوس شواہد پر مبنی ہے یا یہ خطے میں کشیدگی کو ایک خطرناک نہج پر لے جانے کا پیش خیمہ ہے۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس دو پڑوسیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی یہ کشیدگی پورے جنوبی ایشیا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں