ڈچ اور جرمن انٹیلی جنس ایجنسیوں نے انکشاف کیا ہے کہ روس نے یوکرینی فوجیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال میں شدت پیدا کر دی ہے، جو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
جمعہ کو جاری کردہ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اس بات کے وسیع ثبوت موجود ہیں کہ ماسکو کی افواج ممنوعہ مصنوعات استعمال کر رہی ہیں، جن میں دم گھونٹنے والا ایجنٹ کلوروپکرن بھی شامل ہے۔
ڈچ وزیر دفاع روبن بریکل مینز نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ”یہ اب عام اور وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے۔ کلوروپکرن کو ڈرونز کے ذریعے گرایا جاتا ہے تاکہ فوجیوں کو خندقوں سے باہر نکالا جا سکے اور پھر انہیں ہلاک کیا جا سکے۔“
بریکل مینز، جو اب روس کے خلاف سخت پابندیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں، نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو ”خوفناک اور ناقابل قبول“ قرار دیا۔
ڈچ ملٹری انٹیلی جنس اینڈ سیکیورٹی سروس (MIVD) کے سربراہ پیٹر ریسنک نے تصدیق کی کہ یہ نتائج ان کی اپنی تحقیقات پر مبنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ روس کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ”ہزاروں واقعات“ ہوئے ہیں۔
جرمنی کی غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسی بی این ڈی نے بھی MIVD کے نتائج کی تصدیق کی ہے۔ بی این ڈی نے ایک بیان میں کہا کہ روسی فوج آنسو گیس کے ساتھ ساتھ ”زیادہ خطرناک کیمیائی مادہ کلوروپکرن“ بھی استعمال کر رہی ہے، جو بند جگہوں پر زیادہ مقدار میں جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ”یہ کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن کی ایک سنگین خلاف ورزی ہے، جو اس پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والے جنگی ایجنٹ کے استعمال پر ہر حال میں پابندی عائد کرتا ہے۔“
ان رپورٹس کے مطابق، کم از کم تین یوکرینی اموات کا تعلق روسی کیمیائی ہتھیاروں سے جوڑا گیا ہے، جبکہ 2,500 سے زائد افراد نے ان ممنوعہ مصنوعات سے متعلق علامات کی اطلاع دی ہے۔
دوسری جانب، روس نے ان ممنوعہ ہتھیاروں کے استعمال کی تردید کی ہے، جیسا کہ یوکرین بھی کرتا ہے۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے دعویٰ کیا کہ فیڈرل سیکیورٹی سروس نے ملک کے مشرق میں یوکرینی ہتھیاروں کا ایک ذخیرہ پایا ہے جس میں کلوروپکرن موجود تھا۔
کیمیائی ہتھیاروں کے بڑھتے ہوئے استعمال کے الزامات اس وقت سامنے آئے جب یوکرین نے ملک پر اب تک کے سب سے بڑے روسی ڈرون اور میزائل حملے کی اطلاع دی۔ یوکرینی فضائیہ کے ایک اہلکار نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ یہ جنگ کا اب تک کا سب سے بڑا حملہ ہے، جس میں ماسکو نے راتوں رات 539 ڈرون اور 11 میزائل فائر کیے۔
اس دوران، دونوں ممالک نے قیدیوں کے تبادلے کی بھی تصدیق کی ہے، تاہم کسی بھی فریق نے اس میں شامل فوجیوں کی تعداد کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کیں۔