ایٹمی پروگرام پر کشیدگی عروج پر، عالمی معائنہ کار ایران چھوڑ گئے، اب کیا ہوگا؟

اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے انسپکٹرز کی ایک ٹیم ایران سے روانہ ہو گئی ہے۔ یہ اقدام تہران کی جانب سے اسرائیل اور امریکا کے ساتھ 12 روزہ تنازع کے بعد تنظیم کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے فیصلے کے بعد سامنے آیا ہے۔

جمعے کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر جاری ایک بیان میں، بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) نے کہا کہ اس کے ملازمین آسٹریا کے شہر ویانا میں واقع ہیڈکوارٹر واپس لوٹیں گے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے جلد از جلد اپنے نگرانی اور تصدیقی کام کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے ایران کے ساتھ بات چیت کی ‘انتہائی اہمیت’ پر زور دیا ہے۔

یہ انسپکٹرز حالیہ لڑائی کے دوران ایرانی دارالحکومت میں ہی موجود تھے، جو 13 جون کو اس وقت شروع ہوئی جب اسرائیل نے ایرانی فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور ملک کے کئی سینیئر کمانڈرز، اعلیٰ سائنسدانوں اور متعدد شہریوں کو ہلاک کر دیا۔

بعد میں امریکا بھی اس تنازع میں شامل ہو گیا اور اس نے ایران میں جوہری تنصیبات پر بنکر بسٹر بم گرائے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ اس مشن نے ایران کے جوہری پروگرام کو نمایاں طور پر پیچھے دھکیل دیا ہے۔

امریکی اور اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد، ایران نے آئی اے ای اے پر اپنے عدم اعتماد کا واضح اظہار کیا، تاہم اس کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) پر کاربند ہے۔

تنازع کے آغاز سے ہی ایرانی حکام نے آئی اے ای اے پر نہ صرف اسرائیلی اور امریکی حملوں کی مذمت میں ناکامی پر سخت تنقید کی ہے، بلکہ 12 جون کو ایک قرارداد منظور کرنے پر بھی تنقید کی جس میں تہران پر جوہری ذمہ داریوں کی عدم تعمیل کا الزام لگایا گیا تھا، اور یہ قرارداد اسرائیل کے حملے سے ایک دن پہلے منظور کی گئی تھی۔

بدھ کو ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے ملک کو جوہری نگران ادارے کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا حکم دیا۔ تعاون معطل کرنے کا بل پہلے ہی ایرانی پارلیمنٹ میں منظور ہو چکا تھا اور ملک کی گارڈین کونسل نے بھی اس کی منظوری دے دی تھی۔

گارڈین کونسل کے ترجمان ہادی طحان نظیف نے کہا کہ یہ فیصلہ ‘اسلامی جمہوریہ ایران کی قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے مکمل احترام’ کے لیے کیا گیا ہے۔ ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق، بل میں کہا گیا ہے کہ یہ معطلی ‘اس وقت تک نافذ رہے گی جب تک کہ کچھ شرائط پوری نہیں ہو جاتیں، جن میں جوہری تنصیبات اور سائنسدانوں کی سیکیورٹی کی ضمانت بھی شامل ہے’۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے ایران کے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے فیصلے کو ‘ناقابل قبول’ قرار دیتے ہوئے تہران پر زور دیا کہ ‘وہ اپنا راستہ بدلے اور امن و خوشحالی کا راستہ منتخب کرے’۔ انہوں نے دہرایا کہ ‘ایران جوہری ہتھیار حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی کرے گا’۔

تہران جوہری بم بنانے کی خواہش کی تردید کرتا ہے اور سالوں سے یہ دہرا رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف شہری استعمال کے لیے ہے۔ نہ تو امریکی انٹیلیجنس اور نہ ہی رافیل گروسی نے کہا ہے کہ انہیں تہران کے جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی ثبوت ملا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں