پاکپتن: وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حکم پر ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز (ڈی ایچ کیو) اسپتال پاکپتن میں 20 بچوں کی اموات کے معاملے پر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) اور چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ نے اسپتال کا اچانک دورہ کیا اور سانحے کا فوری نوٹس لیا۔ ان کی ہدایت پر پولیس نے ایم ایس ڈاکٹر عدنان غفار اور سی ای او ہیلتھ ڈاکٹر سہیل کو اسپتال کے احاطے سے ہی حراست میں لے لیا۔
سرکاری ذرائع کے مطابق، دونوں افسران کو مبینہ غفلت اور واقعے سے متعلق حقائق چھپانے کی کوشش پر گرفتار کیا گیا ہے۔ دونوں افسران کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) بھی درج کرلی گئی ہے۔
یہ افسوسناک اموات 16 سے 22 جون کے درمیان ہوئیں، جس پر شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا۔ جاں بحق ہونے والے بچوں کے اہلخانہ نے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف پر غفلت کا الزام عائد کیا اور دعویٰ کیا تھا کہ اسپتال میں آکسیجن سلنڈروں کی کمی تھی۔
تاہم، محکمہ صحت پنجاب اور کمشنر ساہیوال کی مرتب کردہ ابتدائی رپورٹس ایک مختلف تصویر پیش کرتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق، جاں بحق ہونے والے 20 میں سے 15 بچے نجی اسپتالوں میں پیدا ہوئے اور انہیں تشویشناک حالت میں سرکاری اسپتال لایا گیا، جبکہ 5 اموات غیر تربیت یافتہ دائیوں کے ہاتھوں غلط طریقے سے ہونے والی ڈیلیوری سے منسلک تھیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کو ڈی ایچ کیو منتقل کرتے وقت ان کی ماؤں کو ساتھ نہیں لایا گیا، جس سے علاج مزید پیچیدہ ہوگیا۔ رپورٹس اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ جاری تحقیقات کے سلسلے میں تین نجی اسپتالوں کو سیل کر دیا گیا ہے۔
پہلے لگائے گئے الزامات کے برعکس، تفتیش کاروں کو آکسیجن کی کمی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈی ایچ کیو میں 45 آکسیجن سلنڈر دستیاب تھے اور ہر بچے کی آمد اور علاج کے دورانیے کا کلینیکل آڈٹ کیا گیا۔
ترجمان پنجاب حکومت نے کہا کہ ایم ایس اور دیگر نے واقعے کی اصل وجہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی، جس پر سخت کارروائی کی گئی۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے عزم ظاہر کیا ہے کہ تمام ذمہ داران کو مکمل طور پر جوابدہ ٹھہرایا جائے گا اور صحت کے شعبے میں غفلت ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔