برطانیہ میں فلسطین کے حامیوں کیلئے بری خبر، معروف تنظیم ’دہشتگرد‘ قرار، رکنیت پر 14 سال قید

لندن: برطانوی ہائی کورٹ نے فلسطین کی حامی مہم جو گروپ ‘فلسطین ایکشن’ پر دہشتگردی مخالف قوانین کے تحت پابندی عائد کرنے کے حکومتی فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے تنظیم کی قانونی چیلنج کی درخواست مسترد کر دی ہے۔

فلسطین ایکشن کی شریک بانی ہدیٰ عموری نے تنظیم کو ‘دہشت گرد’ قرار دینے کے حکومتی فیصلے کو معطل کرنے کے لیے لندن کی ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ تاہم، جمعہ کو جسٹس مارٹن چیمبرلین نے عموری کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے پابندی کو برقرار رکھا، جو آدھی رات سے نافذ العمل ہو جائے گی۔

اس پابندی کے بعد فلسطین ایکشن کا رکن بننا ایک سنگین جرم تصور ہوگا، جس کی زیادہ سے زیادہ سزا 14 سال قید ہے۔ اس فیصلے کے تحت فلسطین ایکشن کو داعش اور القاعدہ جیسی تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے۔

اس فیصلے پر انسانی حقوق کے حلقوں اور ناقدین نے شدید تنقید کی ہے۔ آزاد برطانوی رکن پارلیمنٹ زارا سلطانہ نے کہا، ‘واضح رہے کہ پینٹ کے اسپرے کین کو خودکش بم کے برابر قرار دینا نہ صرف مضحکہ خیز بلکہ انتہائی خوفناک ہے۔ یہ اختلاف رائے کو دبانے، یکجہتی کو مجرمانہ فعل بنانے اور سچ کو چھپانے کے لیے قانون کی دانستہ توڑ مروڑ ہے۔’

فلسطین ایکشن کے کارکنان نے گزشتہ ماہ ایک فوجی اڈے میں داخل ہو کر اسرائیل کی غزہ پر جنگ میں برطانوی حمایت کے خلاف احتجاجاً دو طیاروں پر لال رنگ اسپرے کیا تھا۔

عموری کے وکیل رضا حسین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ پہلی بار ہے کہ برطانیہ نے اس طرح کی براہ راست کارروائی کرنے والے گروپ پر پابندی لگانے کی کوشش کی ہے، اور اسے ‘ایک غیر دانشمندانہ، امتیازی اور قانونی طاقت کا آمرانہ استعمال’ قرار دیا۔

فلسطین ایکشن خود کو ‘ایک فلسطینی حامی تنظیم کے طور پر بیان کرتی ہے جو برطانیہ میں اسلحہ کی صنعت میں براہ راست کارروائی کے ذریعے خلل ڈالتی ہے’ اور ‘اسرائیل کی نسل کشی اور نسل پرستانہ حکومت میں عالمی شرکت کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہے’۔

دوسری جانب، برطانوی وزیر داخلہ یوویٹ کوپر نے کہا ہے کہ تشدد اور مجرمانہ نقصان کی قانونی احتجاج میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں، غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، کم از کم 57,268 فلسطینی شہید اور 135,625 زخمی ہو چکے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں