کراچی: شہر قائد میں عمارتیں گرنے کے المناک واقعات کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا، جہاں 2017 سے اب تک درجنوں قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ بار بار ہونے والے سانحات کے باوجود، انتظامی غفلت، قوانین کا کمزور نفاذ اور بروقت کارروائی کا فقدان شہر بھر میں شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
ان ہلاکت خیز واقعات کا بڑا سبب غیر قانونی اور بوسیدہ عمارتیں ہیں، جن میں سے اکثر کو طویل عرصے سے غیر محفوظ قرار دیا جا چکا ہے لیکن سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کی جانب سے کمزور عملدرآمد کے باعث وہ اب بھی آباد ہیں۔
حالیہ برسوں پر نظر ڈالیں تو ایک خوفناک ٹائم لائن سامنے آتی ہے:
جولائی 2017: لیاقت آباد میں تین منزلہ رہائشی عمارت منہدم ہوگئی، جس سے پانچ افراد جاں بحق اور نو زخمی ہوئے۔
فروری 2019: ملیر کے جعفر طیار سوسائٹی میں چار منزلہ عمارت زمین بوس ہوگئی۔ دو لاشیں نکالی گئیں اور درجنوں کو بچا لیا گیا۔
مارچ 2020: گولیمار (گل بہار) میں بدترین واقعات میں سے ایک پیش آیا، جہاں ایک بڑے سانحے میں 27 افراد جاں بحق اور 50 سے زائد زخمی ہوئے۔
جون 2020: لیاری میں پانچ منزلہ عمارت گرنے سے 22 افراد لقمہ اجل بن گئے۔
ستمبر 2020: کورنگی اللہ والا ٹاؤن میں ایک اور عمارت منہدم ہونے سے دو افراد جاں بحق اور خواتین و بچوں سمیت چھ زخمی ہوئے۔
ستمبر 2020: لیاری میں اسی سال عمارت گرنے کا دوسرا واقعہ پیش آیا جس میں دو مزدور جاں بحق اور 12 زخمی ہوئے۔
اکتوبر 2023: شاہ فیصل کالونی میں ایک زیر تعمیر عمارت گرنے سے چار افراد جاں بحق اور چار زخمی ہوئے۔
جون 2025: کھارادر میں چھ منزلہ عمارت کی چھت اور سیڑھیاں گر گئیں۔ خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور 22 افراد کو بحفاظت نکال لیا گیا۔
جولائی 2025: لیاری میں چھ منزلہ عمارت گرنے سے 10 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے۔
ان مسلسل سانحات نے ایس بی سی اے کے غیر مؤثر کردار پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں، جس کے اقدامات صرف نوٹس اور وارننگ تک محدود رہتے ہیں بجائے اس کے کہ عمارتوں کو خالی کروا کر قوانین پر عملدرآمد کروایا جائے۔ ماہرین اور رہائشی ان جانی نقصانات کا ذمہ دار ناقص تعمیراتی معیار، غیر قانونی تعمیرات اور تاخیری ردعمل کو ٹھہراتے ہیں۔