کینیا کی سڑکیں ایک بار پھر شدید احتجاج کی لپیٹ میں ہیں، جہاں پولیس کے مبینہ وحشیانہ تشدد کے خلاف عوام کا غصہ عروج پر ہے۔ حالیہ مظاہروں کی چنگاری ایک بلاگر کی پولیس حراست میں ہلاکت اور ایک مظاہرین کو قریب سے گولی مارنے کے واقعات کے بعد بھڑکی، جس نے ملک بھر میں احتساب کے مطالبات کو مزید ہوا دی ہے۔
یہ احتجاج ایک سال قبل ہونے والے مہلک کریک ڈاؤن کی یاد تازہ کر رہے ہیں، جس میں متعدد جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ اس واقعے کے بعد بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے رویے میں کوئی خاص تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی ہے، اور پولیس افسران کے استثنیٰ کا معاملہ ایک بار پھر عوامی بحث کا مرکز بن گیا ہے۔
عوامی حلقوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کینیا میں پولیس کا تشدد کیوں برقرار ہے اور افسران انصاف کے کٹہرے سے کیسے بچ نکلتے ہیں۔ بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کے باوجود، احتساب کا عمل سست روی کا شکار نظر آتا ہے، جس سے شہریوں میں مایوسی اور غصہ بڑھ رہا ہے۔
موجودہ صورتحال نے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک سنگین چیلنج کھڑا کر دیا ہے، اور اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ احتجاجی لہر پولیس کے نظام میں کسی حقیقی اصلاحات کا باعث بنے گی یا ماضی کی طرح دب جائے گی۔