امریکہ سے تجارتی ڈیل: بھارت نے ڈیڈلائن سے پہلے بڑا پتہ کھیل دیا، کیا معاہدہ خطرے میں پڑ گیا؟

نئی دہلی: بھارت نے امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدے پر واضح مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معاہدے کے لیے تیار ہے لیکن قومی مفاد کو ہر صورت میں مقدم رکھا جائے گا اور کسی ڈیڈلائن کو پورا کرنے کے لیے جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔

یہ بیان وزیر تجارت و صنعت پیوش گوئل کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مقرر کردہ 9 جولائی کی ڈیڈلائن سے چند روز قبل سامنے آیا ہے۔

جمعے کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پیوش گوئل نے کہا، ”قومی مفاد ہمیشہ سب سے مقدم رہے گا۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے، اگر کوئی اچھا معاہدہ ہوتا ہے تو بھارت ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے ہمیشہ تیار ہے۔“

انہوں نے مزید کہا کہ ”بھارت کبھی بھی ڈیڈلائن یا ٹائم فریم کی بنیاد پر کوئی تجارتی معاہدہ نہیں کرتا… ہم اسے صرف اسی صورت میں قبول کریں گے جب یہ مکمل طور پر حتمی اور قومی مفاد میں ہو گا۔ آزاد تجارتی معاہدے تب ہی ممکن ہوتے ہیں جب دونوں فریقوں کو فائدہ ہو، یہ ایک جیت کا معاہدہ ہونا چاہیے۔“

واضح رہے کہ 2 اپریل کو امریکی صدر ٹرمپ نے تمام امریکی درآمدات پر محصولات کی دھمکی دی تھی، جس میں بھارت کے لیے یہ شرح 26 فیصد مقرر کی گئی تھی۔ تاہم، 9 اپریل کو انہوں نے ان محصولات کو 90 دن کے لیے روک دیا تھا اور اس دوران 10 فیصد کی عبوری شرح مقرر کی تھی تاکہ ممالک واشنگٹن کے ساتھ اپنے تجارتی معاہدے طے کر سکیں۔ یہ ڈیڈلائن 9 جولائی کو ختم ہو رہی ہے۔

بھارت اور امریکہ کے درمیان تجارتی مذاکرات کار کے پرزوں، اسٹیل اور زرعی مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹی پر اختلافات کے باعث تعطل کا شکار ہیں۔ بھارت اپنے زراعت اور ڈیری کے شعبوں کو کھولنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے جبکہ امریکہ میں داخل ہونے والی اپنی مصنوعات کے لیے ویتنام اور چین جیسے ممالک کے مقابلے میں سازگار ٹیرف کا مطالبہ کر رہا ہے۔

دوسری جانب، بھارت نے عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) میں امریکہ کے خلاف جوابی محصولات کی تجویز بھی دی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن کی جانب سے گاڑیوں اور ان کے کچھ پرزوں پر 25 فیصد ٹیرف سے بھارت کی 2.89 ارب ڈالر کی برآمدات متاثر ہوں گی۔

اپنا تبصرہ لکھیں