مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک بدو برادری سے تعلق رکھنے والے کم از کم 50 فلسطینی خاندان اپنے گھر بار چھوڑ کر فرار ہو گئے ہیں۔ مقامی میڈیا رپورٹس اور حقوق کی تنظیم کے مطابق، یہ اقدام اسرائیلی آبادکاروں کی جانب سے اسرائیلی افواج کے تحفظ میں بار بار کیے جانے والے حملوں اور ہراسانی کے بعد اٹھایا گیا ہے۔
فلسطینی خبر رساں ایجنسی وفا کے مطابق، جمعے کی صبح جیریکو کے شمال مغرب میں واقع عرب ملیحات بدو برادری سے 30 فلسطینی خاندانوں کو جبری طور پر بے گھر کیا گیا، جبکہ 20 دیگر خاندان جمعرات کو بے گھر ہوئے۔ اس جبری نقل مکانی سے قبل، اس برادری میں 85 خاندان آباد تھے، جن کی کل تعداد تقریباً 500 افراد پر مشتمل تھی۔
فلسطینی حقوق کی تنظیم ‘البیدر آرگنائزیشن فار دی ڈیفنس آف بدوئن رائٹس’ نے کہا کہ یہ خاندان کئی سال تک “بغیر کسی حمایت کے” اپنا دفاع کرنے کی کوشش کے بعد علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ 7 اکتوبر 2023 کو غزہ پر اسرائیل کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی افواج اور غیر قانونی بستیوں کے آبادکاروں کے حملوں میں تیزی آئی ہے۔
عالیہ ملیحات نے وفا کو بتایا کہ مسلح آبادکاروں کی جانب سے انہیں اور دیگر خاندانوں کو اسلحے کے زور پر دھمکیاں دینے کے بعد ان کا خاندان جیریکو کے جنوب میں واقع عقبہ جبر پناہ گزین کیمپ میں پناہ لینے پر مجبور ہوا۔ اسی برادری سے تعلق رکھنے والے 50 سالہ اور سات بچوں کے والد محمود ملیحات نے روئٹرز نیوز ایجنسی کو بتایا کہ “ہم مزید برداشت نہیں کر سکتے تھے، اس لیے ہم نے جانے کا فیصلہ کیا۔”
انہوں نے کہا، “آبادکار مسلح ہیں اور ہم پر حملہ کرتے ہیں، اور [اسرائیلی] فوج ان کی حفاظت کرتی ہے۔ ہم انہیں روکنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔” البیدر آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر حسن ملیحات نے کہا کہ اسرائیلی آبادکاروں اور فوج کی جانب سے مسلسل اشتعال انگیزی اور حملوں کے بعد برادری کے خاندانوں نے اپنے خیمے اکھاڑنا شروع کر دیے۔
**’ہم اپنے بچوں کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں’**
اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم ‘بتسلیم’ نے جیریکو کے قریب معرجات میں، جہاں ملیحات قبیلہ رہتا ہے، فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی آبادکاروں کے تشدد کے بار بار واقعات کو دستاویزی شکل دی ہے۔ 2024 میں، ڈنڈوں سے مسلح آبادکاروں نے ایک فلسطینی اسکول پر دھاوا بول دیا تھا، جبکہ 2023 میں مسلح آبادکاروں نے فلسطینیوں کو لے جانے والی گاڑیوں کا راستہ روکا اور ان پر پتھراؤ کیا۔
محمود نے اسے ایک بڑی ناانصافی قرار دیتے ہوئے کہا، “ہم اپنے بچوں کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں، اور ہم نے یہاں سے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔”
عالیہ ملیحات نے روئٹرز کو بتایا کہ یہ بدو برادری، جو یہاں 40 سال سے مقیم تھی، اب وادی اردن کے مختلف حصوں میں بکھر جائے گی۔ انہوں نے 30 خاندانوں کی جبری بے دخلی کو “نیا نکبہ” قرار دیتے ہوئے کہا، “لوگ اپنے ہاتھوں سے اپنے گھروں کو مسمار کر رہے ہیں، اس گاؤں کو چھوڑ رہے ہیں جہاں وہ دہائیوں سے رہ رہے تھے۔”
‘نکبہ’، جس کا عربی میں مطلب ‘تباہی’ ہے، 1948 میں ریاست اسرائیل کے قیام کے دوران لاکھوں فلسطینیوں کی ان کے گھروں سے بڑے پیمانے پر بے دخلی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
اسرائیلی فوج نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ تاہم، اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سار نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ شہریوں کی طرف سے تشدد کا کوئی بھی عمل ناقابل قبول ہے۔
کارکنوں کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں اسرائیلی بستیوں کی توسیع میں تیزی آئی ہے، جس سے فلسطینی بے گھر ہو رہے ہیں۔ بیشتر ممالک اسرائیلی بستیوں کو غیر قانونی اور جنیوا کنونشنز کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں، جو مقبوضہ زمین پر شہریوں کو آباد کرنے پر پابندی عائد کرتے ہیں۔