اقوام متحدہ میں اریٹیریا کو بڑا دھچکا، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر تحقیقات روکنے کی کوشش ناکام

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے اریٹیریا کی جانب سے مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی آزادانہ تحقیقات کو بند کرنے کی کوشش ناکام بنا دی ہے، اس اقدام کو انسانی حقوق کے تحفظ اور استثنیٰ کی روک تھام کے لیے ایک اہم کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔

اریٹیریا کی جانب سے اپنے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کے مینڈیٹ کو ختم کرنے کی نادر کوشش جمعہ کو شکست سے دوچار ہوئی، جس میں صرف چار ووٹ حق میں، 25 مخالفت میں آئے، جبکہ 18 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اس نتیجے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ‘ایک اہم پیغام’ قرار دیا ہے کہ ‘عالمی برادری اریٹیریا کی جانب سے ملک کے سنگین حقوق کے ریکارڈ پر آزادانہ رپورٹنگ سے توجہ ہٹانے اور اسے بدنام کرنے کی کوششوں سے بے وقوف نہیں بنتی’۔

اریٹیریا نے اپنی تحریک میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ مبینہ حقوق کی خلاف ورزیاں منظم نہیں ہیں اور اس کا الزام دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح ‘صلاحیت کی کمی’ پر عائد کیا تھا۔ تاہم، یورپی ریاستوں نے اس کے جواب میں مینڈیٹ کو مزید ایک سال کے لیے بڑھانے کی قرارداد پیش کی، جو آسانی سے منظور کر لی گئی۔

اقوام متحدہ کے مقرر کردہ خصوصی نمائندے اور سوڈانی انسانی حقوق کے وکیل، محمد عبدالسلام بابیکر نے جون میں اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا تھا کہ اریٹیریا نے احتساب کے معاملے میں ‘کوئی خاطر خواہ پیش رفت’ نہیں دکھائی ہے۔ انہوں نے 2016 کی اقوام متحدہ کی انکوائری کا حوالہ دیا جس میں پایا گیا تھا کہ ‘حکومت کے اختیار کے تحت اریٹیریا میں منظم، وسیع پیمانے پر اور سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں… جو انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آ سکتی ہیں’۔

2016 کی رپورٹ میں اقوام متحدہ کے کمیشن آف انکوائری نے کہا تھا کہ صدر اسائیس افورکی کی حکومت نے ایک چوتھائی صدی قبل آزادی کے بعد سے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ہے، جس میں 400,000 افراد کو ‘غلام بنانے’ کا الزام بھی شامل ہے۔ ان میں سے بہت سی خلاف ورزیاں مبینہ طور پر ہارن آف افریقہ کی اس خفیہ ریاست میں ایک سخت قومی خدمت کے پروگرام سے منسلک ہیں، جس سے بہت سے لوگوں کے لیے فرار تقریباً ناممکن ہے اور جسے کمیشن نے عمر بھر کی غلامی سے تشبیہ دی تھی۔

ایک پین-افریقی انسانی حقوق کی تنظیم ‘ڈیفنڈ ڈیفنڈرز’ نے کہا کہ بابیکر کا کردار متاثرین اور وسیع تر اریٹیرین ڈائسپورا کے لیے انتہائی اہم ہے۔

یورپی یونین نے خبردار کیا کہ مینڈیٹ کو ختم کرنے سے ‘خاموشی میں استثنیٰ اور جبر کو مزید گہرا ہونے کا موقع ملے گا’۔

اریٹیریا کے نمائندے، ہبتوم زیرائی غرمائی نے اس فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے یورپی یونین پر ‘نوآبادیاتی نجات دہندہ کی ذہنیت’ کا الزام لگایا۔ انہوں نے مزید کہا، ‘خصوصی نمائندے کے مینڈیٹ کی مسلسل توسیع عقل اور انصاف کی توہین ہے’۔

ایران، سوڈان اور روس – جو سب خود اقوام متحدہ کی تحقیقات کی زد میں ہیں – نے اریٹیریا کی تحریک کی حمایت کی۔ چین نے بھی اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے دلیل دی کہ اس طرح کے مینڈیٹ بین الاقوامی وسائل کا غلط استعمال ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں