اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے فلسطین فرانچیسکا البانیز نے اپنی ایک تہلکہ خیز رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ دنیا کی چند بڑی کمپنیاں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی جارحیت اور غزہ میں جاری نسل کشی میں نہ صرف شریک ہیں بلکہ اس سے بھاری منافع بھی کما رہی ہیں۔
اس تاریخی رپورٹ میں مائیکروسافٹ، ایمیزون اور گوگل جیسی بڑی امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو مبینہ طور پر اسرائیل کو غزہ میں اپنی نسل کشی کی کارروائیاں جاری رکھنے میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ کمپنیاں فلسطینیوں پر قبضے سے فائدہ اٹھانے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں شریک ہیں۔
تاہم، اقوام متحدہ کی اس نوعیت کی رپورٹس قانونی طور پر پابند نہیں ہوتیں۔ دوسری جانب، اسرائیل نے فرانچیسکا البانیز کے نتائج کو ”بے بنیاد“ قرار دے کر مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ یہ رپورٹ ”تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو جائے گی“۔
اس رپورٹ کے بعد کئی اہم سوالات نے جنم لیا ہے: کیا یہ بڑی کمپنیاں اپنے مالی مفادات کے باوجود اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کریں گی؟ اور کیا دنیا بھر کے صارفین ان ملوث کمپنیوں پر تجارتی دباؤ ڈالیں گے؟
اس معاملے پر الجزیرہ کے پروگرام ”ان سائیڈ اسٹوری“ میں بائیکاٹ، ڈائیوسٹمنٹ، سینکشنز (BDS) تحریک کے شریک بانی عمر برغوتی، مائیکروسافٹ کی سابق سافٹ ویئر انجینئر وانیا اگروال اور انسانی حقوق کے وکیل اور اقوام متحدہ کے سابق خصوصی نمائندہ مائیکل لنک نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔