واشنگٹن: امریکی حراست میں موجود آٹھ مہاجرین جنوبی سوڈان ملک بدری سے بچنے کی اپنی آخری کوشش بھی ہار گئے ہیں، ایک ایسا ملک جسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر مسلسل تنقید کا سامنا ہے۔
جمعے کے روز بوسٹن کے جج برائن مرفی نے آخری لمحات میں دائر کی گئی اپیل کو مسترد کر دیا، جس پر دن بھر قانونی سرگرمیاں جاری رہیں۔ اس اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے ان افراد کو جنوبی سوڈان بھیجنے کی بار بار کوششیں ”ناقابلِ قبول حد تک سزا کے مترادف“ ہیں، اور یہ کہ امریکی آئین ”ظالمانہ اور غیر معمولی سزا“ پر پابندی عائد کرتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ خود ماضی میں جنوبی سوڈان پر ”ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں، تشدد اور ظالمانہ، غیر انسانی سلوک“ کے الزامات عائد کر چکا ہے اور جاری مسلح تنازعے کے باعث کسی بھی امریکی شہری کو وہاں سفر نہ کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔
تاہم، امریکی سپریم کورٹ نے دو بار فیصلہ دیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ان افراد کو ان کے آبائی ممالک کے علاوہ دیگر ممالک میں بھیج سکتی ہے۔ اس کا تازہ ترین فیصلہ جمعرات کو جاری کیا گیا۔
امریکی محکمہ انصاف کے مطابق، کیوبا، لاؤس، میکسیکو، میانمار، سوڈان اور ویتنام جیسے ممالک سے تعلق رکھنے والے ان آٹھ افراد کو جمعے کی شام 7 بجے تک جنوبی سوڈان روانہ کیا جانا تھا۔
اس کیس میں پہلے واشنگٹن ڈی سی کے جج رینڈولف ماس نے جلاوطنی کو عارضی طور پر روکنے کا حکم دیا تھا اور مہاجرین سے ہمدردی کا اشارہ دیا تھا، لیکن بالآخر انہوں نے کیس واپس جج برائن مرفی کو منتقل کر دیا، جن کے فیصلوں کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ سپریم کورٹ سے رجوع کر چکی تھی۔
جج مرفی نے پہلے ان مہاجرین کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے ان کی جنوبی سوڈان ملک بدری پر حکم امتناع جاری کیا تھا، لیکن سپریم کورٹ نے 23 جون کو پہلی بار اور پھر جمعرات کو دوبارہ اس حکم امتناع کو ختم کر دیا۔
ٹرمپ انتظامیہ کے وکلاء نے دلیل دی کہ ملک بدری میں مزید تاخیر ان ممالک کے ساتھ تعلقات کو خراب کرے گی جو دوسرے ممالک سے مہاجرین کو قبول کرنے پر رضامند ہیں۔ انتظامیہ نے ان آٹھ مہاجرین کو ”وحشی، متشدد اور مجرم غیر قانونی تارکین وطن“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ قتل، ڈکیتی اور جنسی زیادتی جیسے جرائم میں سزا یافتہ ہیں۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی کی ترجمان ٹریشیا میک لافلن نے ایک بیان میں کہا، ”یہ بیمار ذہنیت والے یوم آزادی تک جنوبی سوڈان میں ہوں گے۔“