کراچی: شہر قائد کے علاقے لیاری میں پانچ منزلہ رہائشی عمارت کے زمین بوس ہونے سے قیامت صغریٰ برپا ہوگئی، حادثے میں اب تک 14 افراد کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں جبکہ مزید افراد کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔
لیاری کے علاقے بغدادی میں جمعے کو گرنے والی بوسیدہ عمارت کے ملبے سے لاشیں اور زخمیوں کو نکالنے کا سلسلہ ہفتے کو بھی جاری ہے۔ حکام کا اندازہ ہے کہ اب بھی 6 سے 7 افراد ملبے تلے دبے ہوسکتے ہیں۔
اسپتال انتظامیہ کے مطابق، اب تک ملبے سے 14 لاشیں نکالی جاچکی ہیں جن میں 5 خواتین اور 8 مرد شامل ہیں، جبکہ 3 زخمی افراد اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔
ریسکیو ٹیمیں 20 گھنٹے سے زائد وقت سے امدادی کاموں میں مصروف ہیں، جہاں بھاری مشینری اور ملبے تلے دل کی دھڑکن کا پتہ لگانے والے جدید آلے ’ٹریپڈ پرسن لوکیٹر‘ کی مدد سے زندگیاں بچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ حکام کے مطابق ریسکیو آپریشن مکمل ہونے میں مزید کئی گھنٹے لگ سکتے ہیں۔
جمعے کی شب کمشنر کراچی سید حسن نقوی نے جائے حادثہ کا دورہ کیا اور متاثرہ عمارتوں کے رہائشیوں کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو زبردستی بے دخل نہیں کیا جاسکتا تاہم وہ غیر قانونی تعمیرات کے معاملے پر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے ساتھ میٹنگ کریں گے۔
دوسری جانب، ایس بی سی اے نے انکشاف کیا ہے کہ منہدم ہونے والی عمارت 30 سال پرانی تھی اور اسے پہلے ہی خطرناک قرار دیا جاچکا تھا۔ ادارے کا دعویٰ ہے کہ دو سال قبل رہائشیوں کو عمارت خالی کرنے کے نوٹسز جاری کیے گئے تھے اور 25 جون 2025 کو کے-الیکٹرک اور واٹر بورڈ کو یوٹیلیٹی کنکشن منقطع کرنے کے لیے بھی خطوط لکھے گئے تھے، لیکن نہ تو عمارت خالی کروائی گئی اور نہ ہی کنکشن منقطع ہوئے۔
واضح رہے کہ کراچی میں بوسیدہ اور غیر قانونی عمارتوں کے گرنے کے واقعات تواتر سے پیش آتے رہتے ہیں۔ ایس بی سی اے کے مطابق شہر میں 578 عمارتیں انتہائی خطرناک قرار دی جاچکی ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث قیمتی جانوں کا ضیاع جاری ہے۔