روس یوکرین جنگ کے 1227ویں روز بھی کشیدگی عروج پر رہی، جہاں ایک طرف زاپوریژیا نیوکلیئر پاور پلانٹ کی بجلی منقطع ہونے سے ایٹمی خطرات منڈلانے لگے وہیں روس پر ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے الزامات نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ سفارتی محاذ پر بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کے درمیان ہونے والی بات چیت نے جنگ کے مستقبل پر نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
**محاذ جنگ کی صورتحال**
* روسی حکام کے مطابق، ملک کے فضائی دفاعی نظام نے سینٹ پیٹرزبرگ کے قریب دو ڈرونز سمیت ملک کے مختلف حصوں میں درجنوں یوکرینی ڈرونز کو مار گرایا ہے۔
* اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے نے بتایا کہ یوکرین میں روس کے زیر قبضہ زاپوریژیا نیوکلیئر پلانٹ کو بجلی فراہم کرنے والی تمام بیرونی لائنیں کئی گھنٹوں تک بند رہیں، جنہیں بعد میں بحال کر دیا گیا۔
* یوکرینی حکام نے بجلی کی اس بندش کا الزام روسی گولہ باری پر عائد کیا اور کہا کہ تکنیکی ماہرین کو اسے بحال کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے پڑے۔
* ڈچ اور جرمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ روس یوکرین میں ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بڑھا رہا ہے، جس میں پہلی جنگ عظیم کی زہریلی گیس کلوروپکرین بھی شامل ہے۔ تاہم، ماسکو نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
**ہتھیاروں کی فراہمی**
* امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے جرمن چانسلر فریڈرک مرز اور یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کے ساتھ فون پر بات چیت میں یوکرین کو پیٹریاٹ انٹرسیپٹر میزائل بھیجنے پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
* ایک جرمن حکومتی ترجمان نے کہا کہ ملک یوکرین کے لیے امریکا سے مزید پیٹریاٹ ایئر ڈیفنس سسٹم خریدنے کے امکانات کا جائزہ لے رہا ہے۔
**سیاست اور سفارتکاری**
* صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے جمعرات کو روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ فون پر پابندیوں کے بارے میں بات کی، اور بتایا کہ پیوٹن ان کے بارے میں فکر مند ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔
* امریکی صدر نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ اپنے روسی ہم منصب سے ”بہت ناخوش“ ہیں اور مزید کہا کہ ”وہ ہر حد تک جانا چاہتے ہیں، صرف لوگوں کو مارتے رہنا چاہتے ہیں – یہ اچھا نہیں ہے۔“
* یوکرینی صدر زیلنسکی نے کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کے ساتھ یوکرین کے فضائی دفاع کو مضبوط کرنے پر متفق ہیں، کیونکہ کیف میں امریکی فوجی امداد کی فراہمی پر تشویش بڑھ رہی تھی۔ زیلنسکی کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان جمعہ کو فون پر ”انتہائی اہم اور نتیجہ خیز گفتگو“ ہوئی۔
* جرمن وزارت دفاع نے کہا کہ وزیر دفاع بورس پسٹوریئس اس ماہ کے آخر میں اپنے امریکی ہم منصب سے ایئر ڈیفنس سسٹم اور پیداواری صلاحیتوں کے بارے میں بات چیت کے لیے واشنگٹن کا سفر کریں گے۔