کابل: ایک نئی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ 60 لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل شہر کابل اگلے پانچ سالوں میں پانی سے محروم ہونے والا پہلا جدید شہر بن سکتا ہے۔
غیر منافع بخش تنظیم مرسی کورپس کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، افغان دارالحکومت میں زیر زمین پانی کی سطح موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور پانی کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے خطرناک حد تک گر گئی ہے۔
**بحران کی گہرائی**
رواں سال اپریل میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران کابل میں پانی کے ذخائر کی سطح 25 سے 30 میٹر (82 سے 98 فٹ) تک گر گئی ہے، جبکہ پانی کا اخراج قدرتی طور پر بھرنے کی شرح سے سالانہ 44 ملین کیوبک میٹر زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق، اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو 2030 تک کابل کے آبی ذخائر خشک ہو جائیں گے، جس سے افغان دارالحکومت کو ایک وجودی خطرہ لاحق ہو جائے گا اور تقریباً 30 لاکھ افغان باشندے نقل مکانی پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
یونیسف کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کابل کے تقریباً نصف زیر زمین بور ویل، جو رہائشیوں کے لیے پینے کے پانی کا بنیادی ذریعہ ہیں، پہلے ہی خشک ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ 80 فیصد تک زیر زمین پانی کو غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے، جس میں سیوریج، آرسینک اور نمکیات کی زیادہ مقدار پائی جاتی ہے۔
**تنازع، موسمیاتی تبدیلی اور حکومتی ناکامیاں**
ماہرین اس بحران کے پیچھے متعدد عوامل کی نشاندہی کرتے ہیں جن میں موسمیاتی تبدیلی، ناقص طرز حکمرانی اور موجودہ وسائل پر بڑھتا ہوا دباؤ شامل ہے، کیونکہ شہر کی آبادی 2001 میں 10 لاکھ سے بھی کم تھی جو آج تقریباً 60 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔
کابل پولی ٹیکنیک یونیورسٹی کے سابق لیکچرر اور آبی وسائل کے ماہر عاصم مایار کا کہنا ہے کہ ”یہ پیش گوئی زیر زمین پانی کے ری چارج اور سالانہ پانی کے اخراج کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق پر مبنی ہے۔ یہ رجحانات گزشتہ برسوں میں مسلسل دیکھے گئے ہیں، جس سے یہ پیش گوئی قابل اعتبار ہے۔“
افغانستان واٹر اینڈ انوائرمنٹ پروفیشنلز نیٹ ورک کے سینئر محقق نجیب اللہ سدید نے کہا کہ یہ بتانا ناممکن ہے کہ دارالحکومت کب تک خشک ہو جائے گا، لیکن انہوں نے تسلیم کیا کہ کابل کے پانی کے مسائل سنگین ہیں۔ انہوں نے کہا، ”ہم جانتے ہیں کہ خاتمہ قریب ہے۔“
**پانی کا بے دریغ استعمال اور طبقاتی تقسیم**
افغان دارالحکومت کا ایک بڑا حصہ زیر زمین بور ویلوں پر انحصار کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کابل میں تقریباً 120,000 غیر قانونی بور ویل موجود ہیں۔ 2023 کی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں پایا گیا کہ کابل کے تقریباً 49 فیصد بور ویل خشک ہو چکے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ بحران شہر کے امیر اور غریب کے درمیان فرق کو بھی واضح کرتا ہے۔ امیر رہائشی گہرے بور ویل کھدوانے کی استطاعت رکھتے ہیں، جس سے غریبوں کی رسائی مزید محدود ہو جاتی ہے۔
نجیب اللہ سدید نے مزید کہا کہ کابل کے پہلے سے ختم ہوتے آبی وسائل کو دارالحکومت میں کام کرنے والی 500 سے زائد مشروبات اور منرل واٹر کمپنیاں بھی استعمال کر رہی ہیں۔ ان کے اندازے کے مطابق، صرف ایک مشہور افغان کمپنی الکوزے سالانہ تقریباً ایک ارب لیٹر پانی نکالتی ہے۔
**بار بار خشک سالی اور کم ہوتی برفباری**
پانی کی قلت موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مزید بڑھ گئی ہے۔ حالیہ برسوں میں ملک بھر میں بارشوں میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔ مرسی کورپس کی رپورٹ کے مطابق، اکتوبر 2023 سے جنوری 2024 کے درمیان، افغانستان میں گزشتہ سالوں کے مقابلے میں موسم سرما میں اوسط بارش کا صرف 45 سے 60 فیصد حصہ ریکارڈ کیا گیا۔
**کئی دہائیوں کا تنازع اور پابندیاں**
ماہرین کا مؤقف ہے کہ کابل کا بحران موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے کہیں زیادہ گہرا ہے، جسے سالہا سال کی جنگ، کمزور حکمرانی، اور امداد پر منحصر ملک پر عائد پابندیوں نے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد مغربی پابندیوں نے ترقیاتی منصوبوں میں نمایاں رکاوٹ ڈالی ہے جو کابل کو موجودہ آبی بحران سے بہتر طریقے سے نمٹنے میں مدد دے سکتے تھے۔ نتیجتاً، حکام کو پائپ لائنوں، نہروں اور ڈیموں کی دیکھ بھال میں مشکلات کا سامنا ہے۔
کئی منصوبہ بند منصوبے، بشمول مصنوعی زیر زمین ری چارج کے منصوبے، طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد معطل کر دیے گئے۔ مثال کے طور پر، جرمن ڈویلپمنٹ بینک اور یورپی ایجنسیوں کے مالی تعاون سے چلنے والا ایک منصوبہ کابل کے کچھ حصوں کو سالانہ 44 ارب لیٹر پانی فراہم کر سکتا تھا، لیکن اب یہ منصوبہ معطل ہے۔ اسی طرح، بھارت اور سابق غنی حکومت نے 2021 میں دریائے کابل پر شاہ توت ڈیم کی تعمیر کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کا مستقبل بھی اب غیر یقینی ہے۔
**بحران سے نمٹنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟**
ماہرین اس بحران سے نمٹنے کے لیے شہر کے آبی انفراسٹرکچر کی ترقی کو نقطہ آغاز کے طور پر تجویز کرتے ہیں۔ عاصم مایار نے تجویز دی کہ ”شہر کے ارد گرد مصنوعی زیر زمین ری چارج اور بنیادی آبی انفراسٹرکچر کی ترقی کی فوری ضرورت ہے۔“
ماہرین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ چیک ڈیم اور آبی ذخائر کی تعمیر سے زیر زمین پانی کو ری چارج کرنے میں مدد ملے گی۔ تاہم، افغانستان کی عالمی تنہائی اور پابندیوں کی وجہ سے یہ تمام اقدامات مشکل ہو گئے ہیں، جو ملک کو پانی کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور دیکھ بھال کے لیے ضروری وسائل، ٹیکنالوجی اور فنڈنگ تک رسائی سے روکتے ہیں۔