وزیراعلیٰ گنڈاپور کی حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی سرگوشیاں، کیا کھیل پلٹنے والا ہے؟

لاہور: خیبرپختونخوا اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی دوبارہ تقسیم نے دلچسپ اعداد و شمار سامنے لائے ہیں، جس کے بعد سیاسی گلیاروں میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی باتیں گردش کرنے لگی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی مثال لیں، جس نے صرف 6 منتخب اراکین کے باوجود 9 مخصوص نشستیں حاصل کیں۔ اسی طرح جمعیت علمائے اسلام (ف) نے 7 منتخب اراکین پر 12 اور پاکستان پیپلز پارٹی نے 4 منتخب اراکین کے عوض 7 مخصوص نشستیں حاصل کیں۔

اس وقت خیبرپختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی کو واضح اکثریت حاصل ہے، جہاں علی امین گنڈاپور کو سنی اتحاد کونسل کے 58 اراکین اور 34 آزاد اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گنڈاپور نے خود بحیثیت آزاد امیدوار وزیراعلیٰ کا حلف اٹھایا تھا اور سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی۔

اگرچہ رانا ثناء اللہ اور خواجہ آصف دونوں ہی وزیراعلیٰ کے پی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے امکان کو مسترد کرچکے ہیں، اور گنڈاپور بھی پراعتماد نظر آتے ہیں جنہوں نے اپوزیشن کو چیلنج کیا ہے کہ اگر وہ کامیاب ہوگئے تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے، لیکن اپوزیشن اتحاد کی نشستیں بڑھ کر 53 ہونے کے بعد تحریک عدم اعتماد کی باتیں زور پکڑ رہی ہیں۔

وزیراعلیٰ کو ہٹانے کے لیے اپوزیشن آئین کے آرٹیکل 136 کے تحت تحریک عدم اعتماد لا سکتی ہے یا پھر گورنر آرٹیکل 130(7) کے تحت وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی صورت میں اپوزیشن کو اپنی اکثریت ثابت کرنا ہوگی، جبکہ گورنر کے اقدام کی صورت میں حکومت کو اکثریت ثابت کرنا ہوگی۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اپوزیشن کو کم از کم 73 اراکین کی حمایت درکار ہوگی، یعنی وہ اس وقت 20 اراکین کی کمی کا شکار ہے۔ یہ تعداد پوری کرنے کے لیے وہ نہ صرف آزاد اراکین کو ہدف بنا سکتے ہیں بلکہ سنی اتحاد کونسل کے اراکین کو بھی توڑنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے اکتوبر 2024 کے فیصلے کے مطابق، منحرف اراکین کے ووٹ شمار ہوں گے، چاہے وہ بعد میں نااہل ہی کیوں نہ ہو جائیں۔ تاہم، اپوزیشن کے لیے یہ راستہ بھی آسان نہیں۔ 34 آزاد اراکین میں سے بیشتر کا سیاسی کیریئر پی ٹی آئی سے وابستہ ہے اور ان کی وفاداری توڑنا مشکل ہوگا۔ اسی طرح سنی اتحاد کونسل میں شامل 58 پی ٹی آئی حمایت یافتہ اراکین کی وفاداری بھی پارٹی کے ساتھ مضبوط ہے اور بحران کے وقت میں ان کا پارٹی چھوڑنا انتہائی مشکل ہوگا۔

موجودہ صورتحال کے باوجود، پی ٹی آئی کو خیبرپختونخوا میں اب بھی بڑی عوامی حمایت حاصل ہے اور پارٹی چھوڑنے والے کسی بھی رکن کو اپنے ووٹرز کا سامنا کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں