لاہور: شہر کے ایک پرندے فروش نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ چند طوطے فروخت کرنا اسے اپنے ہی پیسوں تک رسائی سے محروم کر دے گا۔
اپریل کے اوائل میں، ساٹھ سالہ ندیم ناصر کو بار بار ناکام ٹرانزیکشنز کے بعد معلوم ہوا کہ ان کا بینک اکاؤنٹ بلاک کر دیا گیا ہے۔ جب وہ اپنے بینک پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ یہ کارروائی ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ اسلام آباد کے حکم پر کی گئی ہے۔
بینک نے انہیں ہدایت کی کاپی دینے سے انکار کر دیا۔ ندیم ناصر نے دی نیوز کو بتایا، ”میں حیران رہ گیا، آخر میں نے ایسا کون سا جرم کیا تھا؟“
کئی دن تک ایف آئی اے دفاتر میں کالز کا جواب نہ ملنے کے بعد بالآخر لاہور آفس کے ایک اہلکار نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ اسلام آباد میں مقیم کسی صحافی کو جانتے ہیں۔ وہ انہیں جانتے تھے، لیکن صرف اس لیے کہ انہوں نے اس صحافی کو طوطے فروخت کیے تھے، جو ریاستی اداروں پر تنقیدی رپورٹس اور تبصرے شائع کرتے رہے ہیں۔
اگلے ہی دن اس صحافی کو بھی معلوم ہوا کہ ان کا اور ان کی والدہ کا بینک اکاؤنٹ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے منجمد کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ برسوں میں اس صحافی کو اپنی آزادانہ رپورٹنگ کی وجہ سے گرفتاریوں اور جسمانی حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
بالآخر مئی میں، ایک ماہ سے زائد عرصے تک اپنی کمائی سے محروم رہنے کے بعد، اسلام آباد ہائیکورٹ نے صحافی کا اکاؤنٹ بحال کرنے کا حکم دیا۔ سماعت کے دوران جسٹس خادم حسین سومرو نے حکومتی وکیل سے اکاؤنٹ منجمد کرنے کی بنیاد دریافت کی۔ جواب میں وکیل نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کا ایک صفحے کا جواب جمع کرایا۔
اس دستاویز میں کہا گیا کہ صحافی کی ‘ریاست اور حکومت مخالف پوسٹس’ اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے حاصل ہونے والے فنڈز کی تحقیقات جاری ہیں۔ اس میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنڈنگ کے ممکنہ سراغ کی جانچ کا بھی دعویٰ کیا گیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ صحافی کو کوئی پیشگی نوٹس جاری نہیں کیا گیا اور نہ ہی الزامات کا جواب دینے کا موقع فراہم کیا گیا۔ جج نے لکھا، ”بغیر قانونی کارروائی کے ایسا اقدام بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔“
یہ صرف ایک شخص کا معاملہ نہیں، میڈیا پروڈکشن ہاؤس چلانے والے عاطف سجاد رضا اور ایک اور پرندے فروش روزی خان کے بینک اکاؤنٹس بھی بغیر کسی رسمی اطلاع کے منجمد کر دیے گئے۔ ان دونوں نے بھی اسی صحافی کے ساتھ مالی لین دین کیا تھا۔
اسلام آباد میں مقیم ایک اور آزاد صحافی کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ اپریل میں ان کی اہلیہ اور بہن کے بینک اکاؤنٹس بھی بغیر انتباہ کے بلاک کر دیے گئے۔ ایف آئی اے نے زبانی طور پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات کا حوالہ دیا لیکن کوئی سرکاری دستاویز فراہم نہیں کی۔
پیرس میں قائم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے بارہا پاکستان کو صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شمار کیا ہے، جہاں ایسے اقدامات اکثر بغیر کسی نتیجے کے گزر جاتے ہیں۔
فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک کا کہنا ہے کہ اکاؤنٹس منجمد کرنا ریاست کی جانب سے تنقیدی رپورٹنگ کی حوصلہ شکنی کی ایک وسیع کوشش کا حصہ لگتا ہے۔ انہوں نے کہا، ”یہ آزاد صحافیوں کے خلاف انہیں ذہنی طور پر تھکانے کے لیے استعمال کیا جانے والا ایک نیا حربہ ہے۔“
دوسری جانب، ندیم ناصر اب بھی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ ان کی اہلیہ کینسر کا علاج کروا رہی ہیں اور وہ خود بھی طبی اخراجات سے گزرے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں اپنی فوری ضروریات پوری کرنے کے لیے دوسروں کے بینک اکاؤنٹس پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے سوال کیا، ”میرا جرم کیا ہے؟ مجھے کس بات کی سزا دی جا رہی ہے؟“