ایک نعرے پر شور، ہزاروں اموات پر خاموشی: غزہ پر برطانیہ کا چونکا دینے والا دہرا معیار بے نقاب

برطانیہ کے سب سے بڑے میوزک فیسٹیول گلاسٹنبری میں دو فنکاروں نے اسٹیج پر غزہ میں جاری اسرائیلی نسل کشی کی مذمت کرتے ہوئے برطانوی حکومت کو اس میں شریک قرار دیا، جس کے بعد ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔

فنکار باب وائلن کے اسٹیج پر دیے گئے ریمارکس نے ملک کے سب سے بڑے نشریاتی ادارے بی بی سی کو بھی ایک اور غزہ سے متعلق تنازعے میں گھسیٹ لیا ہے، جس نے اس پرفارمنس کو براہ راست نشر کیا تھا۔ الجزیرہ کے پروگرام ‘دی لسننگ پوسٹ’ میں اس صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے کہ کس طرح ایک نعرے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن غزہ میں ہونے والی مبینہ نسل کشی کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

اس پروگرام میں مصنف ڈیس فریڈمین، صحافی پیٹر اوبرن، بی بی سی کی سابق نیوز ریڈر کرشمہ پٹیل، اور پروفیسر جسٹن شلوسبرگ جیسے ماہرین نے برطانوی میڈیا اور حکومت کے اس دوہرے معیار پر روشنی ڈالی۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ صرف برطانیہ تک محدود نہیں ہے۔ امریکہ میں نیویارک کے میئر کے لیے ڈیموکریٹک نامزدگی حاصل کرنے والے زہران ممدانی کو بھی غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے خلاف کھل کر بولنے پر میڈیا کے مسلسل حملوں کا سامنا ہے۔

پروگرام میں اس بات کا بھی تجزیہ کیا گیا کہ کس طرح ‘دریا سے سمندر تک’ جیسے نعروں پر عالمی میڈیا میں بحثیں چھڑ جاتی ہیں، لیکن اسرائیل کے اندر فلسطینی مخالف بیانیے، جو پاپ گانوں سے لے کر وائرل نعروں تک معمول بن چکے ہیں، پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ فلسطینی تجزیہ کار عبدالجواد عمر نے اس روزمرہ کی اسرائیلی نسل پرستی کو بے نقاب کیا۔

مجموعی طور پر، یہ رپورٹ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مغربی ممالک اور ان کا میڈیا اسرائیل-فلسطین تنازع پر منافقت اور دوہرے معیار کا مظاہرہ کر رہا ہے، جہاں فلسطینیوں کی حمایت میں اٹھنے والی آوازوں کو دبایا جاتا ہے جبکہ ان کی تکالیف کو کم کر کے پیش کیا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں