نیویارک: اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینتونیو گوتریس نے یوکرین پر رواں ہفتے ہونے والے روسی ڈرون اور میزائل حملے کی شدید مذمت کی ہے، جسے تین سالہ جنگ کا سب سے بڑا حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ہفتے کو جاری کردہ ایک بیان میں، گوتریس کے ترجمان نے کہا کہ روسی حملوں نے زاپوریژیا نیوکلیئر پاور پلانٹ کی بجلی کی فراہمی میں خلل ڈالا، جو ایک بار پھر جوہری حفاظت کو درپیش مسلسل خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔ بیان میں کہا گیا، ’’سیکریٹری جنرل اس خطرناک کشیدگی اور بڑھتی ہوئی شہری ہلاکتوں پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘
یوکرینی حکام کے مطابق، ماسکو نے جمعے کی شب دارالحکومت کیف پر 500 سے زائد ڈرونز اور 11 میزائل داغے، جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور کم از کم 23 دیگر زخمی ہوئے، جبکہ شہر بھر میں عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔ فضائی حملوں کے سائرن، کامیکازی ڈرونز اور دھماکوں کی آوازیں صبح تک گونجتی رہیں۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اس حملے کو ’’جان بوجھ کر کیا گیا بڑا اور وحشیانہ حملہ‘‘ قرار دیا۔
روس نے حالیہ مہینوں میں یوکرینی شہروں پر اپنے طویل فاصلے تک مار کرنے والے حملوں میں اضافہ کیا ہے، جبکہ جنگ کے خاتمے کے لیے جنگ بندی کی امریکی قیادت میں کوششیں تعطل کا شکار ہیں۔
دوسری جانب، یوکرین کے اعلیٰ فوجی کمانڈر اولیکسینڈر سیرسکی نے ہفتے کے روز خارکیف کے علاقے میں ایک نئے روسی حملے کے امکان سے خبردار کیا ہے۔ روسی افواج حالیہ مہینوں میں یوکرینی فرنٹ لائن کے کئی حصوں کے ساتھ آہستہ آہستہ پیش قدمی کر رہی ہیں۔
یوکرین کی فضائیہ کے مطابق، روس نے ہفتے کی شب یوکرین میں 322 ڈرون اور ڈیکوز فائر کیے، جن میں سے 157 کو مار گرایا گیا اور 135 کو الیکٹرانک طور پر جام کر دیا گیا۔ یوکرین نے بھی روس میں جوابی حملے تیز کر دیے ہیں، روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اس نے ہفتے کی صبح اور دوپہر تک 94 یوکرینی ڈرونز کو مار گرایا۔
یہ حملے ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب یوکرینی صدر زیلنسکی نے جمعہ کو کہا کہ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک ’’انتہائی اہم اور نتیجہ خیز‘‘ فون پر گفتگو کی ہے جس کا مقصد یوکرین کے فضائی دفاع کو مضبوط بنانا ہے۔ امریکی صدر نے اس سے ایک روز قبل اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن سے بھی بات کی تھی جسے انہوں نے مایوس کن قرار دیا۔ کریملن کے ترجمان نے کہا کہ روس اپنے مقاصد سیاسی اور سفارتی طریقوں سے حاصل کرنے کو ترجیح دیتا ہے، لیکن جب تک یہ ممکن نہیں، ’’خصوصی آپریشن‘‘ جاری رہے گا۔