لیاری میں قیامت ٹوٹ پڑی، منہدم عمارت سے 26 لاشیں نکال لی گئیں، ملبے تلے مزید کون ہے؟

کراچی: لیاری کے علاقے بغدادی میں منہدم ہونے والی عمارت کے ملبے تلے دبے مزید افراد کی تلاش تیسرے روز بھی جاری ہے جبکہ حادثے میں جاں بحق ہونے والے 26 میں سے 20 افراد کی نماز جنازہ گزشتہ شب ادا کردی گئی۔

ایدھی فاؤنڈیشن کے ترجمان کے مطابق، ریسکیو اہلکاروں نے اب تک ملبے سے 26 لاشیں نکالی ہیں، جن میں 9 خواتین، 15 مرد، ایک 10 سالہ لڑکا اور ڈیڑھ سالہ بچی شامل ہے۔ ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تین افراد زیر علاج ہیں۔ تمام لاشوں کو تدفین کے لیے مواچھ گوٹھ مہیشوری قبرستان بلدیہ منتقل کردیا گیا ہے۔

ملبہ ہٹانے کے لیے بھاری مشینری کا استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ ریسکیو اہلکار زندہ بچ جانے والوں کی نشاندہی کے لیے ‘ٹریپڈ پرسن لوکیٹر’ (ملبے میں دل کی دھڑکن کا پتہ لگانے والا آلہ) بھی استعمال کر رہے ہیں۔

اتوار کے روز جاری سرچ آپریشن کی تفصیلات بتاتے ہوئے ایک ریسکیو افسر نے بتایا کہ ملبہ ہٹانے کا 80 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے، تاہم اب بھی تین مزید افراد کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ”آپریشن کے دوران دو بار بڑی رقم ملی، جسے متعلقہ فریقین کے حوالے کردیا گیا۔“ اس کے علاوہ 50 رکشے بھی ملبے تلے دبے ہوئے پائے گئے۔

یہ المناک واقعہ جمعے کے روز پیش آیا جب کئی دہائیاں پرانی، گنجان آباد علاقے میں واقع عمارت زمین بوس ہوگئی، جس میں 20 اپارٹمنٹس میں 40 سے زائد افراد رہائش پذیر تھے۔

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) نے انکشاف کیا ہے کہ منہدم ہونے والی عمارت 30 سال پرانی تھی اور اسے پہلے ہی غیر محفوظ قرار دیا جا چکا تھا۔ اتھارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس نے دو سال قبل باقاعدہ طور پر عمارت خالی کرنے کے نوٹس جاری کیے تھے اور آخری نوٹس 25 جون 2025 کو بھیجا گیا تھا۔ ایس بی سی اے کے مطابق اس نے کے-الیکٹرک اور واٹر بورڈ کو یوٹیلیٹی سروسز منقطع کرنے کے لیے بھی نوٹس بھیجے تھے، لیکن نہ تو کنکشن کاٹے گئے اور نہ ہی عمارت خالی کرائی گئی۔

یہ واقعہ کراچی میں غیر قانونی اور خستہ حال عمارتوں سے جڑے خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایس بی سی اے کی جانب سے شہر میں 578 عمارتوں کو رہائش کے لیے غیر محفوظ اور ناقابل استعمال قرار دیا جا چکا ہے، جن میں سے 456 صرف ڈسٹرکٹ ساؤتھ میں ہیں۔

سندھ حکومت نے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی ہے، جسے پیر تک اپنی رپورٹ جمع کرانے کا کام سونپا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں