واشنگٹن: ٹیکنالوجی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ اور ارب پتی ایلون مسک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ شدید اختلافات کے بعد نئی سیاسی جماعت بنانے کے اپنے وعدے کو پورا کر دیا۔ متنازع بجٹ قانون سازی، جسے “ون بگ، بیوٹی فل بِل” کا نام دیا گیا ہے، پر دستخط کے بعد دونوں شخصیات کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے۔
ایلون مسک نے ہفتے کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر “امریکا پارٹی” کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد امریکی عوام کو ان کی آزادی واپس دلانا اور ملک کے “یک جماعتی نظام” کو چیلنج کرنا ہے۔
انہوں نے جمعے کو، جو کہ امریکا کا یومِ آزادی بھی ہے، اپ لوڈ کیے گئے ایک پول کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے پوچھا تھا کہ کیا جواب دہندگان “دو جماعتی (جسے کچھ لوگ یک جماعتی کہتے ہیں) نظام سے آزادی چاہتے ہیں” جس نے تقریباً دو صدیوں سے امریکی سیاست پر غلبہ حاصل کر رکھا ہے۔ اس پول پر 1.2 ملین سے زیادہ جوابات موصول ہوئے۔
مسک نے ہفتے کو لکھا، “دو کے مقابلے ایک کی اکثریت سے، آپ ایک نئی سیاسی جماعت چاہتے ہیں اور آپ کو یہ ملے گی!” انہوں نے اعلان کیا، “جب بات ہمارے ملک کو فضول خرچی اور بدعنوانی سے دیوالیہ کرنے کی ہو تو ہم ایک جماعتی نظام میں رہتے ہیں، جمہوریت میں نہیں۔ آج، امریکا پارٹی آپ کو آپ کی آزادی واپس دلانے کے لیے قائم کی گئی ہے۔”
یہ اقدام دنیا کے امیر ترین شخص اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان نئے بجٹ قانون پر بڑھتے ہوئے جھگڑے کے دوران سامنے آیا ہے، جس کے بارے میں ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے سی ای او کا کہنا ہے کہ یہ امریکا کو دیوالیہ کر دے گا۔
یاد رہے کہ ایلون مسک 2024 کے انتخابات کے دوران ٹرمپ کے اہم ترین انتخابی مہم کے فنانسرز میں سے ایک تھے اور انہوں نے صدر کی دوسری مدت کے آغاز سے ہی سرکاری اخراجات میں کمی کے لیے بنائے گئے ‘محکمہ برائے حکومتی استعداد’ کی قیادت بھی کی۔ تاہم، “بگ، بیوٹی فل بِل” پر اختلافات کے بعد دونوں کے تعلقات میں شدید تلخی آگئی۔
مسک نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ ایک نئی سیاسی جماعت شروع کریں گے اور اس بل کی حمایت کرنے والے قانون سازوں کو شکست دینے کے لیے رقم خرچ کریں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بل سے امریکی خسارے میں ایک دہائی کے دوران 3.4 ٹریلین ڈالر کا اضافی بوجھ پڑے گا۔
مسک نے کہا تھا، “وہ اگلے سال اپنی پرائمری ہار جائیں گے، چاہے یہ اس زمین پر میرا آخری کام ہی کیوں نہ ہو۔”
ٹرمپ یا وائٹ ہاؤس کی جانب سے مسک کے اعلان پر فوری طور پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا۔ تاہم، ٹرمپ نے رواں ہفتے کے شروع میں مسک کی کمپنیوں کو وفاقی حکومت سے ملنے والی اربوں ڈالر کی سبسڈی ختم کرنے اور جنوبی افریقی نژاد ٹائیکون کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دی تھی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ 2002 سے امریکی شہریت رکھنے والے مسک کو ملک بدر کرنے پر غور کریں گے تو صدر نے صحافیوں کو بتایا، “ہمیں اس پر غور کرنا پڑے گا۔”
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ نئی جماعت 2026 کے وسط مدتی انتخابات یا اس کے دو سال بعد ہونے والے صدارتی انتخاب پر کتنا اثر ڈالے گی۔ مسک نے اپنی نئی جماعت کے لیے ممکنہ سیاسی حکمت عملی کا خاکہ بھی پیش کیا ہے جس کے تحت ایوان نمائندگان اور سینیٹ کی کمزور نشستوں کو ہدف بنایا جائے گا تاکہ ان کی جماعت اہم قانون سازی پر “فیصلہ کن ووٹ” بن سکے۔
ایلون مسک کی بے پناہ دولت کے باوجود، ریپبلکن-ڈیموکریٹک دو قطبی نظام کو توڑنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے، جس نے 160 سال سے زیادہ عرصے سے امریکی سیاسی زندگی پر غلبہ حاصل کر رکھا ہے۔