اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو پیر کو امریکا کا دورہ کر رہے ہیں، جہاں تجزیہ کاروں کے مطابق وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایران کے خلاف خود ساختہ فتح کا جشن منانے اور غزہ میں جنگ بندی کی تجویز پر بات چیت کریں گے۔
یہ اس سال تیسری بار ہے کہ نیتن یاہو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے، جن کا دعویٰ ہے کہ امریکا اور اسرائیل نے 12 روزہ جنگ کے دوران ایران کے جوہری پروگرام کو ‘تباہ’ کر دیا ہے اور اگر ایران نے جوہری سرگرمیاں دوبارہ شروع کیں تو وہ دوبارہ بمباری کریں گے۔
گزشتہ ہفتے، ٹرمپ نے کہا تھا کہ اسرائیل نے غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی کی شرائط پر اتفاق کر لیا ہے، جس سے تمام فریقین کو 21 ماہ سے جاری اس جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار کرنے میں مدد ملے گی۔ 4 جولائی کو حماس نے بھی جنگ بندی کی تازہ ترین تجویز پر قطری اور مصری ثالثوں کو ‘مثبت’ جواب دیا تھا۔
**کیا جنگ بندی حقیقت پسندانہ ہے؟**
حماس کے جواب کے بعد ٹرمپ نے کہا تھا کہ ‘اگلے ہفتے معاہدہ’ ہو سکتا ہے اور جنگ بندی کو یقینی بنانے کے لیے نیتن یاہو کے ساتھ ‘بہت سختی’ سے پیش آنے کا وعدہ کیا۔ تاہم، اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس نے تجویز میں ایسی تبدیلیاں طلب کی ہیں جو ‘ناقابل قبول’ ہیں، لیکن اسرائیلی مذاکرات کار اتوار کو اس تجویز پر بات چیت کے لیے قطر جائیں گے۔
الجزیرہ کو موصول ہونے والی معاہدے کی ایک لیک شدہ کاپی کے مطابق، جنگ بندی میں 60 دن کے لیے دشمنی میں توقف اور 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد سے غزہ میں قید 58 اسرائیلی قیدیوں میں سے کچھ کی مرحلہ وار رہائی شامل ہے۔
غزہ پر اسرائیل کی جنگ میں کم از کم 57,000 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، جسے اقوام متحدہ کے ماہرین، قانونی اسکالرز اور انسانی حقوق کے گروپس فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی قرار دیتے ہیں۔
کئی ماہرین نے الجزیرہ کو بتایا کہ وہ پرامید نہیں ہیں کہ عارضی جنگ بندی جنگ کے مستقل خاتمے کا باعث بنے گی۔ مڈل ایسٹ کونسل فار گلوبل افیئرز کے اسرائیل-فلسطین امور کے ماہر عمر رحمان نے کہا، ‘جس طرح سے (جنگ بندی کی بات چیت) کی جا رہی ہے، وہ مجھے شکوک میں مبتلا کرتی ہے۔’ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کی توجہ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرانے پر ہے، نہ کہ جنگ کے خاتمے اور غزہ کے لوگوں کی تکالیف کو ختم کرنے پر۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی ماہر میراف زونزین کا کہنا تھا کہ ‘سب کچھ ٹرمپ اور امریکا پر منحصر ہے کہ وہ (نیتن یاہو پر) حقیقی دباؤ برقرار رکھیں، لیکن اس کا امکان بہت کم ہے۔’ انہوں نے مزید کہا، ‘یہ بھی ممکن ہے کہ ہم ایک ایسی جنگ بندی دیکھیں جو زیادہ دیر تک نہ چلے کیونکہ اسرائیل اکثر غزہ میں بغیر کسی نتیجے کے کچھ بھی بمباری کر دیتا ہے۔’
غزہ میں ایک فلسطینی صحافی یاسر البنا نے کہا کہ پٹی میں بہت سے لوگ اس بارے میں منقسم ہیں کہ آیا جنگ بندی سے جنگ ختم ہو جائے گی۔ جب کہ ہر کوئی دعا کرتا ہے کہ ایسا ہو، کچھ لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ نیتن یاہو کسی معاہدے پر قائم رہیں گے، جو ‘حماس پر مکمل فتح’ کے بغیر جنگ ختم نہ کرنے پر مصر ہیں۔
**شان و شوکت اور حقیقت پسندی**
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ٹرمپ عالمی معاملات میں اپنی کامیابیوں پر فخر کرنے کے لیے بڑے معاہدے کرنے کی خواہش سے متاثر ہیں۔ وہ ممکنہ طور پر ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کا سہرا اپنے سر لیں گے اور غزہ میں باقی اسرائیلی قیدیوں کو واپس لانے کی خواہش کا اظہار کریں گے۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں عرب اسٹڈیز کے پروفیسر اور اسرائیل-فلسطین کے ماہر خالد الگندی نے کہا کہ وہ اسرائیل اور پڑوسی عرب ریاستوں کے درمیان مزید معمول کے معاہدوں کو آگے بڑھانے کے لیے ‘غزہ کے مسئلے’ کو راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ آیا نیتن یاہو کے سیاسی حسابات ٹرمپ کے عزائم سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اگر نیتن یاہو بقیہ قیدیوں کو واپس لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ ممکنہ مقبولیت کی لہر پر سوار ہو کر جلد انتخابات میں جا سکتے ہیں۔
یورپی کونسل آن فارن ریلیشنز کے ماہر ہیو لَوَٹ کا کہنا ہے کہ یہ غور و فکر اس لیے اہم ہے کیونکہ اگر مستقل جنگ بندی ہو جاتی ہے تو نیتن یاہو کا کمزور دائیں بازو کا اتحاد، جو غزہ پر جنگ کو طول دینے کے دباؤ پر قائم ہے، ٹوٹ سکتا ہے۔
**ایک ممکنہ، ناقابلِ تصور نتیجہ**
دفتر میں رہنا اسرائیل کے سب سے طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے وزیراعظم کے لیے خاص طور پر اہم ہے، جنہیں دھوکہ دہی اور رشوت ستانی کے کئی گھریلو قانونی الزامات کا سامنا ہے۔ ماہرین توقع کرتے ہیں کہ ٹرمپ کے ساتھ ان کی ملاقات میں نیتن یاہو کے مقدمے پر بھی بات چیت ہوگی، جو ان کے سیاسی حسابات میں بڑا کردار ادا کرتا ہے۔
ٹرمپ نیتن یاہو کی اس مشکل سے بخوبی واقف ہیں۔ 25 جون کو انہوں نے اسرائیل سے نیتن یاہو کے خلاف الزامات واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس مقدمے کو ‘وِچ ہنٹ’ قرار دیا تھا۔ جارج ٹاؤن کے الگندی کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے تبصرے سے لگتا ہے کہ وہ نیتن یاہو کے مخالفین پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ غزہ پر جنگ ختم کرنے کے بدلے میں معافی جاری کی جائے۔
الگندی نے ٹرمپ کی حالیہ سوشل میڈیا پوسٹ کا حوالہ دیا جہاں انہوں نے نیتن یاہو کے خلاف الزامات واپس نہ لیے جانے تک اسرائیل کی فوجی امداد معطل کرنے کا اشارہ دیا تھا۔ انہوں نے کہا، ‘اس کا طریقہ کار بلیک میل اور زبردستی کرنا ہے۔ یہ اس کی سفارت کاری کا ورژن ہے۔’
نیتن یاہو کو معاف کرنے کا فیصلہ اسرائیلی صدر اسحاق ہرتصوغ کے پاس ہے، لیکن ایسا اقدام بے مثال ہوگا، اور صدر نے ایسا کرنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ہرتصوغ نیتن یاہو کو معاف کرنے پر راضی ہو سکتے ہیں اگر وہ سیاسی زندگی سے دستبردار ہونے پر راضی ہوں، نہ کہ صرف جنگ بندی کو یقینی بنانے کے لیے۔