غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے حالیہ دنوں میں مذاکرات میں تیزی آئی ہے، تاہم فریقین کے مؤقف میں واضح فرق کے باعث معاہدے کے امکانات پر شکوک و شبہات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اسرائیل 60 روزہ جنگ بندی کی شرائط پر متفق ہوگیا ہے اور مذاکرات کار غزہ میں تقریباً 21 ماہ سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے حتمی راستہ نکال سکتے ہیں۔
حماس نے ثالثوں کو ترامیم کے ساتھ اپنا ‘مثبت جواب’ پہنچا دیا ہے، جبکہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے فلسطینی گروپ کے مطالبات کو ‘ناقابلِ قبول’ قرار دیا لیکن اس کے باوجود مذاکرات کے لیے اپنی ٹیم قطر کے دارالحکومت دوحہ بھیج دی ہے۔
نیتن یاہو پیر کو واشنگٹن ڈی سی کا دورہ کرنے والے ہیں، جہاں اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ ایک معاہدہ چاہتے ہیں۔ ہفتے کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا، ‘اگلے ہفتے غزہ کا معاہدہ ہو سکتا ہے،’ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ انہیں حماس کی جوابی تجویز کے بارے میں ابھی بریفنگ نہیں دی گئی لیکن یہ ‘اچھی’ بات ہے کہ انہوں نے جواب دیا ہے۔
**حماس کے مطالبات کیا ہیں؟**
رپورٹس کے مطابق، حماس کے تین بنیادی مطالبات ہیں:
**1. غزہ انسانی ہمدردی فاؤنڈیشن (GHF) کا خاتمہ:** حالیہ ہفتوں میں غزہ میں جی ایچ ایف کے امدادی مراکز پر امداد کے حصول کی کوشش میں کم از کم 743 فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے جی ایچ ایف پر اسرائیل کے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا الزام عائد کرتے ہوئے تنقید کی ہے۔ اقوام متحدہ کے اعلیٰ انسانی ہمدردی کے عہدیدار ٹام فلیچر نے کہا تھا کہ ‘یہ امداد کو سیاسی اور فوجی مقاصد سے مشروط کرتا ہے اور بھوک کو سودے بازی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔’
**2. اسرائیلی فوج کا انخلاء:** حماس چاہتی ہے کہ اسرائیلی فوج ان پوزیشنوں پر واپس چلی جائے جہاں وہ اس سال مارچ میں جنگ بندی کی خلاف ورزی سے پہلے موجود تھی۔ مئی میں، اسرائیلی فوج نے غزہ میں بڑے پیمانے پر نئے زمینی آپریشن شروع کیے تھے، جس میں سینکڑوں فلسطینی شہید ہوئے، تاکہ پٹی کے بڑے حصوں پر ‘آپریشنل کنٹرول’ حاصل کیا جا سکے۔
**3. جنگ کے خاتمے کی بین الاقوامی ضمانتیں:** مارچ میں، فلسطینی فریق کی جانب سے جنگ بندی کی شرائط پر عمل درآمد کے باوجود اسرائیل نے یکطرفہ طور پر معاہدہ توڑ دیا تھا۔ اس بار حماس اور دیگر فلسطینی گروپ اس بات کی بین الاقوامی یقین دہانی چاہتے ہیں کہ ایسا دوبارہ نہیں ہوگا۔ حماس مبینہ طور پر امریکہ کی طرف سے اس بات کی ضمانت چاہتی ہے کہ اگر جنگ بندی بغیر کسی مستقل معاہدے کے ختم ہو جائے تب بھی اسرائیلی فضائی حملے اور زمینی کارروائیاں دوبارہ شروع نہیں ہوں گی۔
**امریکہ کی حمایت یافتہ اصل تجویز کیا ہے؟**
اطلاعات کے مطابق، اصل امریکی تجویز میں غزہ میں باقی رہ جانے والے اسرائیلی قیدیوں پر کلیدی توجہ دی گئی ہے۔ منصوبے کے تحت حماس کے پاس موجود 10 زندہ اسرائیلی قیدیوں اور 18 دیگر کی لاشوں کو اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے بدلے رہا کیا جائے گا۔ یہ رہائی کئی دنوں پر محیط ہوگی۔ امداد کے سوال پر، اقوام متحدہ اور ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی فلسطینیوں کو مناسب مقدار میں امداد کی تقسیم میں حصہ ڈالیں گی۔ آخر میں، یہ غزہ کے کچھ حصوں سے اسرائیلی فوجیوں کے مرحلہ وار انخلاء کا مطالبہ کرتی ہے۔
**اسرائیل کا مؤقف**
وزیراعظم نیتن یاہو نے مبینہ طور پر اصل امریکی تجویز سے اتفاق کیا تھا لیکن حماس کی ترامیم کو ‘ناقابلِ قبول’ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ جنگ اس وقت تک ختم نہیں کریں گے جب تک تمام قیدی رہا نہیں ہو جاتے اور حماس ‘تباہ’ نہیں ہو جاتی۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ نیتن یاہو اس جنگ کو اس وقت تک جاری رکھنا چاہتے ہیں جب تک کہ وہ اپنے خلاف مقدمات کو ختم کرنے اور اسرائیل کے رہنما بنے رہنے کے لیے کافی سیاسی حمایت حاصل نہیں کر لیتے۔
**معاہدے کے امکانات کتنے ہیں؟**
صدر ٹرمپ ایک معاہدے تک پہنچنے کے خواہشمند نظر آتے ہیں اور غزہ کے فلسطینی اسرائیلی حملوں کے خاتمے کے لیے بے چین ہیں۔ تاہم، قطر یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر عدنان حیاجنہ نے الجزیرہ کو بتایا کہ ‘اسرائیل اور نیتن یاہو جنگ بندی تک پہنچنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔’ انہوں نے مزید کہا کہ جنگ بندی کا ‘بہت کم امکان’ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘اسرائیل جو چاہتا ہے وہ واضح ہے… عوام کے بغیر زمین۔ لہٰذا فلسطینیوں کو تین انتخاب دیے گئے ہیں… بھوک سے مرنا… مارے جانا… یا زمین چھوڑ دینا، لیکن فلسطینیوں نے اب تک ثابت کیا ہے کہ وہ کچھ بھی ہو جائے زمین نہیں چھوڑیں گے۔’