پاکستانی یونیورسٹیاں عالمی دوڑ میں پیچھے کیوں؟ چیئرمین HEC نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

اسلام آباد: چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) ڈاکٹر مختار احمد نے کہا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں دنیا کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں شمار ہونے کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں، لیکن ناقص گورننس کی وجہ سے عالمی درجہ بندی میں تنزلی کا سامنا ہے۔

یہ ریمارکس انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام ‘جیو پاکستان’ میں گفتگو کرتے ہوئے دیے، جہاں وہ حال ہی میں جاری ہونے والے ایک سروے پر ردعمل دے رہے تھے جس کے مطابق کوئی بھی پاکستانی یونیورسٹی دنیا کی ٹاپ 350 جامعات میں جگہ نہیں بنا سکی۔

بین الاقوامی یونیورسٹی رینکنگ ادارے کیو ایس (QS) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، قائد اعظم یونیورسٹی 354ویں اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نست) 371ویں نمبر پر ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی جامعہ، کراچی یونیورسٹی، بمشکل ٹاپ 1001 میں جگہ بنا سکی، جبکہ سندھ کی کوئی دوسری یونیورسٹی ٹاپ 1500 میں بھی شامل نہیں۔

ڈاکٹر مختار احمد نے ایک مثبت پہلو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ 2019 میں صرف تین کے مقابلے میں اب 18 پاکستانی یونیورسٹیاں عالمی سطح پر ٹاپ 1000 میں شامل ہو چکی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستانی نظام نے ایسے گریجویٹس پیدا کیے ہیں جنہوں نے عالمی سطح پر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

چیئرمین ایچ ای سی نے کہا کہ سب سے اہم مسئلہ ‘گورننس’ کا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ”تعلیمی اداروں میں گورننس کو بہتر بنانا موجودہ مسائل کو حل کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔“

انہوں نے دوسرا بڑا مسئلہ ‘معیار’ کو قرار دیا اور کہا کہ یہ تاثر کہ یونیورسٹیاں تعلیمی مراکز کے بجائے محض ‘ملازمتوں کا مرکز’ بن چکی ہیں، تعلیمی صنعت کے لیے ایک اور چیلنج ہے۔

ڈاکٹر مختار احمد نے مزید کہا کہ پاکستان کے تعلیمی شعبے میں سرمایہ کاری غیر مستحکم رہی ہے اور 2002 سے بجٹ میں اتار چڑھاؤ دیکھا گیا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ مغرب کی کسی ایک ٹاپ 500 یونیورسٹی کا بجٹ بھی پاکستان کی کسی ایک یونیورسٹی کے پورے ہائر ایجوکیشن بجٹ سے زیادہ ہوتا ہے۔

انہوں نے پاکستانی یونیورسٹیوں کو دنیا کی بہترین جامعات کے ساتھ مقابلہ کرنے کے قابل بنانے کے لیے نوجوانوں میں ‘اونرشپ اور سرمایہ کاری’ پر زور دیا۔

اپنا تبصرہ لکھیں