برکس اجلاس میں دھماکہ خیز بیان: لولا ڈی سلوا نے غزہ میں ’اسرائیلی نسل کشی‘ کی شدید مذمت کردی، دنیا سے بڑا مطالبہ!

ریو ڈی جنیرو: برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا ڈی سلوا نے 11 ابھرتی ہوئی معیشتوں کے برکس اجلاس کے دوران غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیوں کو ’نسل کشی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو اسے روکنے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔

اتوار کے روز چین، بھارت اور دیگر ممالک کے رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے لولا ڈی سلوا نے کہا، ”ہم غزہ میں اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی نسل کشی، بے گناہ شہریوں کے اندھا دھند قتل اور بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے پر لاتعلق نہیں رہ سکتے۔“

ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دوحہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے ہیں اور 21 ماہ سے جاری اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے، جو 7 اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملوں سے شروع ہوئی تھی۔

لولا نے کہا کہ ”اس دن حماس کی دہشت گردانہ کارروائیوں کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا“، جس کے نتیجے میں زیادہ تر اسرائیلی شہریوں سمیت 1,219 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ تاہم، انہوں نے اسرائیل کے بعد کے اقدامات پر بھی شدید تنقید کی۔ اسرائیلی فوجی مہم میں غزہ میں کم از Gکم 57,418 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔

واضح رہے کہ برکس ممالک کے درمیان اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ ایران پر اسرائیل کی بمباری اور غزہ میں اس کی جنگ کی کس قدر سختی سے مذمت کی جائے۔

ریو میں موجود رہنماؤں نے روایتی مغربی اداروں میں اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہوئے برکس کو ایک تیزی سے منقسم ہوتی دنیا میں کثیرالجہتی سفارت کاری کے محافظ کے طور پر پیش کیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ’امریکہ فرسٹ‘ کے نقطہ نظر اور جی 7 اور جی 20 جیسے فورمز میں تقسیم کی وجہ سے برکس کی توسیع نے سفارتی ہم آہنگی کے لیے نئی راہیں کھولی ہیں۔

لولا نے اپنے افتتاحی کلمات میں اس کا موازنہ سرد جنگ کی غیر وابستہ تحریک سے کیا، جو ترقی پذیر ممالک کا ایک گروپ تھا جس نے منقسم عالمی نظام کے کسی بھی فریق میں باضابطہ طور پر شامل ہونے کی مزاحمت کی تھی۔ انہوں نے کہا، ”برکس غیر وابستہ تحریک کا وارث ہے۔ کثیرالجہتی پر حملے کے ساتھ، ہماری خودمختاری ایک بار پھر خطرے میں ہے۔“

برکس ممالک اب دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی اور اس کی اقتصادی پیداوار کا 40 فیصد نمائندگی کرتے ہیں۔ برازیل، روس، بھارت اور چین کے رہنماؤں نے 2009 میں پہلی سربراہی کانفرنس کی تھی۔ بعد میں اس بلاک میں جنوبی افریقہ شامل ہوا اور گزشتہ سال مصر، ایتھوپیا، انڈونیشیا، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو بھی بطور رکن شامل کیا گیا۔

اس سال کے سربراہی اجلاس میں کچھ اہم رہنما غیر حاضر رہے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے اپنی جگہ اپنے وزیر اعظم کو بھیجا جبکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن بین الاقوامی فوجداری عدالت کے وارنٹ گرفتاری کی وجہ سے آن لائن شرکت کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور جنوبی افریقی صدر سیرل رامافوسا سمیت کئی سربراہان مملکت ریو کے میوزیم آف ماڈرن آرٹ میں ہونے والے مذاکرات میں شریک ہوئے۔

اپنا تبصرہ لکھیں