الجزیرہ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیلی قابض افواج مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے کی کارروائیوں میں خطرناک حد تک اضافہ کر چکی ہیں، جو 1967 کے بعد سے گزشتہ 50 سالوں میں بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
الجزیرہ کی نامہ نگار ندا ابراہیم نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیلی بلڈوزر مقبوضہ علاقوں میں مسلسل تباہی پھیلا رہے ہیں، جس سے فلسطینی برادریوں پر گہرے اور تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ان کارروائیوں کا بنیادی مقصد فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنا ہے تاکہ غیر قانونی یہودی بستیوں کی توسیع کی راہ ہموار کی جاسکے۔
اسرائیلی حکام ان مسماریوں کا جواز عموماً تعمیراتی اجازت ناموں کی عدم موجودگی کو قرار دیتے ہیں، تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے لیے ان اجازت ناموں کا حصول تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔
گھروں کی مسماری کے اس بے رحمانہ سلسلے نے ہزاروں فلسطینی خاندانوں کو کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔ خواتین، بچے اور بوڑھے شدید موسمی حالات اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔ یہ کارروائیاں نہ صرف فلسطینیوں سے ان کی چھت چھین رہی ہیں بلکہ ان کی سماجی اور معاشی زندگی کو بھی بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔
بین الاقوامی قوانین کے تحت، قابض طاقت کی جانب سے مقبوضہ علاقے میں جائیداد کی تباہی ایک جنگی جرم تصور کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود، اسرائیل عالمی برادری کے دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں نے ان اقدامات کو اجتماعی سزا اور نسل پرستانہ پالیسی کا حصہ قرار دیا ہے، جس کا مقصد فلسطینی آبادی کو کمزور کرنا اور ان کی زمینوں پر قبضہ کرنا ہے۔