لفظوں کا خطرناک کھیل: ’فلسطین نواز‘ کی اصطلاح کے پیچھے چھپا وہ ایجنڈا جو انسانیت کے حامیوں کو دہشتگرد بنا رہا ہے

قطر میں نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ابراہیم ابوشریف نے اپنے ایک تجزیاتی مضمون میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ‘فلسطین نواز’ (pro-Palestinian) کی اصطلاح کو ترک کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس میڈیا شارٹ ہینڈ کو تیزی سے اجتماعی قتل کے خلاف یکجہتی اور احتجاج کے کاموں کو تشدد کے ساتھ ملانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

مصنف کا کہنا ہے کہ مغربی میڈیا میں یہ رجحان بڑھتا جا رہا ہے کہ جارحیت پر مبنی واقعات کو ان سرگرمیوں سے جوڑ دیا جاتا ہے جنہیں وہ ‘فلسطین نواز’ قرار دیتے ہیں۔ اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں پیش آنے والے تین واقعات کا حوالہ دیا، جن میں ایک عبادت گاہ پر آتش زنی کی کوشش اور دیگر پرتشدد کارروائیاں شامل تھیں۔ ان واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے میڈیا نے واضح کیا کہ متاثرہ کاروبار کو ماضی میں ‘فلسطین نواز مظاہرین’ نے نشانہ بنایا تھا۔

اسی طرح، 21 مئی کو واشنگٹن ڈی سی میں کیپیٹل جیوش میوزیم کے باہر فائرنگ کے واقعے میں، جس میں دو اسرائیلی سفارتی عملے کے ارکان ہلاک ہوئے، حملہ آور کا نام سامنے آنے سے پہلے ہی میڈیا نے یہ رپورٹ کیا کہ اس نے ‘آزاد فلسطین’ کا نعرہ لگایا تھا اور اس واقعے کو ‘فلسطین نواز’ وکالت سے جوڑ دیا۔

ابراہیم ابوشریف کے مطابق، ‘فلسطین نواز’ کی اصطلاح ایک گمراہ کن سیاسی شارٹ ہینڈ بن چکی ہے جو فلسطینی وکالت کو تشدد کے ساتھ جوڑتی ہے۔ یہ اصطلاح اہم سیاق و سباق سے خالی ہے اور خبر پڑھنے والوں کو ایک محدود اور مسخ شدہ نظریے کے ذریعے واقعات کی ناقص تشریح فراہم کرتی ہے۔

وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف پرامن احتجاج اور سرگرمیوں کو ‘فلسطین نواز’ کہنا توہین آمیز نہیں؟ ان کے مطابق ایک محصور آبادی کی منظم بھوک مری کی مخالفت کرنا ‘فلسطین نواز’ نہیں بلکہ ‘انسانیت نواز’ ہے۔ کیا 18,000 سے زائد بچوں کی جان لینے والے تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کرنا ‘فلسطین نواز’ ہے؟

مصنف کا مؤقف ہے کہ یہ اصطلاح ایک جھوٹے لسانی نظام کے تحت کام کرتی ہے، جو ایک انتہائی غیر مساوی حقیقت کو دو مسابقتی فریقوں کی کہانی میں بدل دیتی ہے، گویا ایک مقبوضہ، بمباری کا شکار اور بے گھر لوگ دنیا کی جدید ترین فوجوں میں سے ایک کے برابر ہیں۔ غزہ کوئی فریق نہیں، بلکہ بقول یونیسیف اہلکار، یہ ‘بچوں کا قبرستان’ ہے۔

یہ اصطلاح بدنیتی پر مبنی عناصر کو اختلاف رائے کو بدنام کرنے، اخلاقی وضاحت کو مسترد کرنے اور غم و غصے کو ناجائز قرار دینے کی اجازت دیتی ہے۔ جب واشنگٹن میں فائرنگ کرنے والے الیاس روڈریگیز کو ‘فلسطین نواز شوٹر’ کہا جاتا ہے، تو یہ قارئین کو فلسطینی یکجہتی کے الفاظ کو تشدد کے ممکنہ پیش خیمہ کے طور پر دیکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ جامعات سمیت دیگر اداروں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ وکالت کو انتہا پسندی کے ساتھ ملا دیں اور کیمپس میں اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگائیں۔

مضمون کے آخر میں مصنف نے واضح اور درست زبان استعمال کرنے پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر لوگ انسانی حقوق کی وکالت کر رہے ہیں، تو ایسا ہی کہا جائے۔ اگر وہ فلسطینی زندگی کو وقار، تحفظ اور یادداشت کے لائق سمجھتے ہیں، تو ایسا ہی کہا جائے۔ اور اگر وہ فلسطین کی ‘آزادی’ کا مطالبہ کرتے ہیں، تو اس کا مطلب قبضے، محاصرے، بھوک، اور قتل و قید سے آزادی کا مطالبہ ہے، نہ کہ لازمی طور پر تشدد۔ ان متنوع تاثرات کو ‘فلسطین نواز’ جیسے مبہم لیبل میں سمیٹنا حقیقت کو دھندلا دیتا ہے اور عوامی غلط فہمی کو گہرا کرتا ہے۔

(اس مضمون میں بیان کردہ خیالات مصنف کے اپنے ہیں اور الجزیرہ کے ادارتی موقف کی عکاسی ضروری نہیں کرتے۔)

اپنا تبصرہ لکھیں