واشنگٹن: وائٹ ہاؤس نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2026 کے نوبل امن انعام کے لیے پاکستان کی جانب سے نامزد کیے جانے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور اسے جنوبی ایشیا کی تاریخ کے ایک کشیدہ باب کے دوران ان کی سفارتی کوششوں کا اعتراف قرار دیا ہے۔
پریس بریفنگ کے دوران وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے نامزدگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے بھارت اور پاکستان کے درمیان ممکنہ طور پر تباہ کن فوجی کشیدگی کو کم کرنے میں ٹرمپ کے کردار کو تسلیم کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ”یہ نامزدگی صدر ٹرمپ کی فیصلہ کن سفارت کاری کا اعتراف ہے جس نے خطے میں جوہری تنازع کو روکنے میں مدد کی۔“
اسلام آباد نے حال ہی میں 6 مئی 2025 کو شروع ہونے والے پاک بھارت فوجی تنازع کے دوران مداخلت کا حوالہ دیتے ہوئے ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے تجویز کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں ناروے میں نوبل کمیٹی کو باضابطہ سفارش کا خط بھیجا گیا ہے۔
واضح رہے کہ نئی دہلی کی جانب سے پاکستانی سرزمین پر متعدد بلااشتعال میزائل حملوں کے جواب میں پاکستان نے ’آپریشن بنیان مرصوص‘ کے نام سے بڑے پیمانے پر جوابی فوجی کارروائی کی تھی جس میں کئی بھارتی فوجی اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان نے تین رافیل سمیت 6 بھارتی لڑاکا طیارے اور درجنوں ڈرون مار گرائے تھے۔ 87 گھنٹے بعد 10 مئی کو امریکا کی ثالثی میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق، حالیہ فوجی محاذ آرائی کے دوران بھارتی حملوں میں مسلح افواج کے 13 اہلکاروں اور 40 شہریوں سمیت کل 53 افراد شہید ہوئے تھے۔
ٹرمپ کو امریکی کانگریس کے ایک ریپبلکن رکن نے بھی 2026 کے انعام کے لیے نامزد کیا ہے، جنہوں نے اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں ان کے کردار کا سہرا ان کے سر باندھا ہے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ٹرمپ نے اپنی سفارتی کارروائیوں کو نوبل انعام سے جوڑا ہے۔ اپنی صدارت کے دوران، انہوں نے کھلے عام کہا تھا کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ سے بچنے میں مدد کرنے پر اس اعزاز کے مستحق ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ ”وہ مجھے یہ نہیں دیں گے – نوبل صرف لبرلز کے لیے ہے۔“