ٹی ٹی پی عالمی خطرہ قرار، پاکستان نے افغانستان کو دہشتگردوں کی افزائش گاہ بننے پر خبردار کردیا

اقوام متحدہ میں پاکستان نے افغانستان میں موجود دہشتگرد گروہوں کے حوالے سے عالمی برادری کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ زدہ ملک کو دہشت گردی کا مرکز بننے سے روکنا ہوگا اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ایک علاقائی اور عالمی خطرہ ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں افغانستان کی صورتحال پر ہونے والے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ افغانستان دہشتگردوں کی افزائش گاہ نہ بنے جو نہ صرف اپنے پڑوسیوں بلکہ خطے اور اس سے باہر کے ممالک کے لیے بھی خطرہ ہیں۔

سفیر کے یہ ریمارکس پاکستان کے اس بار بار کے مؤقف کی عکاسی کرتے ہیں جس میں افغان سرزمین کو دہشتگردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال کرنے کی مخالفت کی گئی ہے۔

پاکستان کو 2021 میں طالبان کے افغانستان میں اقتدار میں آنے کے بعد سے سرحد پار دہشتگردی کے واقعات میں اضافے کا سامنا ہے، خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے سرحدی صوبوں میں۔

عاصم افتخar نے افغانستان سے پیدا ہونے والی دہشت گردی کو پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ داعش جہاں ڈی فیکٹو حکام کو نشانہ بنا رہی ہے، وہیں القاعدہ، ٹی ٹی پی اور بلوچ عسکریت پسند گروپوں جیسی دیگر دہشت گرد تنظیمیں افغانستان کے غیر زیر انتظام علاقوں سے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پاکستانی سفیر نے مزید کہا کہ تقریباً 6 ہزار جنگجوؤں پر مشتمل ٹی ٹی پی افغان سرزمین سے کام کرنے والا سب سے بڑا اقوام متحدہ کا نامزد کردہ دہشت گرد گروپ ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ٹی ٹی پی اور داعش سمیت مختلف دہشت گرد گروپوں کے درمیان بھرتیوں کے تبادلے کے باعث ٹی ٹی پی نہ صرف ہماری قومی سلامتی بلکہ خطے اور دنیا کے لیے بھی خطرہ ہے۔

سفیر عاصم افتخار نے دہشت گردوں کی جانب سے جدید ہتھیاروں، گولہ بارود اور نفیس آلات کے استعمال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے خلاف حملوں میں ان کا استعمال بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ٹی ٹی پی اور دیگر گروپوں جیسے بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور مجید بریگیڈ کے درمیان تعاون کے معتبر ثبوت موجود ہیں، جن کا مقصد پاکستان میں اسٹریٹجک انفراسٹرکچر اور اقتصادی ترقی کے منصوبوں کو متاثر کرنا ہے۔

افغانستان کے مسائل کے پاکستان پر براہ راست اثرات کو اجاگر کرتے ہوئے سفیر نے کہا کہ پاکستان نے دہائیوں تک لاکھوں افغانوں کی میزبانی کی اور اپنی محدودات کے باوجود کمزور افغانوں کا تحفظ جاری رکھا ہوا ہے۔

انہوں نے افغان معیشت اور بینکنگ سسٹم کی بحالی، مالی اثاثوں کو غیر منجمد کرنے اور تجارت و سرمایہ کاری کو فعال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

سفیر عاصم افتخار نے اپنی گفتگو کے اختتام پر کہا کہ افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے، اور عملی اور حقیقت پسندانہ مذاکرات اور سفارت کاری ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں