امریکی ریاست ٹیکساس میں شدید بارشوں اور تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 100 سے تجاوز کرگئی ہے، لیکن اس المناک صورتحال کے دوران سوشل میڈیا پر ایک خوشی کی خبر تیزی سے پھیلنا شروع ہوئی۔ خبر یہ تھی کہ دو لاپتہ بچیوں کو ایک درخت سے زندہ بچا لیا گیا ہے۔ تاہم، یہ معجزاتی کہانی مکمل طور پر جھوٹی نکلی، جس نے بحرانی حالات میں پھیلنے والی غلط معلومات کے خطرات کو اجاگر کیا ہے۔
یہ افواہ اس وقت جنگل کی آگ کی طرح پھیلی جب ایک رضاکار، کورڈ شفلیٹ نے فیس بک لائیو ویڈیو میں دعویٰ کیا کہ دو بچیوں کو 27 فٹ اونچے درخت سے زندہ پایا گیا ہے۔ اس خبر نے مایوسی میں ڈوبے عوام کو امید کی ایک کرن دکھائی اور ہزاروں افراد نے اسے سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔
مقامی نیوز آؤٹ لیٹ ‘دی کیر کاؤنٹی لیڈ’ نے بھی متعدد خود ساختہ عینی شاہدین اور رضاکاروں کے بیانات پر بھروسہ کرتے ہوئے اس خبر کو شائع کر دیا، جس کے بعد یہ قومی سطح پر بھی پھیل گئی۔ اخبار کے ایڈیٹر لوئس امیسٹوئے کے مطابق، تقریباً 20 سے 30 افراد نے ان کی رپورٹر کو بچیوں کے بچائے جانے کی ایک جیسی کہانیاں سنائیں، جس کے بعد انہوں نے خبر شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔
تاہم، چند گھنٹوں بعد ہی کیر کاؤنٹی کے شیرف لیری ایل لیتھا نے اس خبر کو ‘100 فیصد غلط’ قرار دے دیا۔ اس تصدیق کے بعد نیوز آؤٹ لیٹ کو اپنی خبر واپس لینی پڑی اور ایک ایڈیٹر نوٹ میں لکھا، “ہم سب کی طرح، ہم بھی چاہتے تھے کہ یہ کہانی سچ ہو، لیکن یہ غلط معلومات کی ایک کلاسک مثال ہے جو قدرتی آفات کے دوران ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔”
کئی فیس بک پیجز اور تصدیق شدہ اکاؤنٹس نے بھی اس خبر کو شیئر کیا تھا، جنہوں نے بعد میں اپنی پوسٹس کو حذف یا اپ ڈیٹ کر دیا، لیکن کئی پوسٹس پیر کی شام تک بغیر کسی تبدیلی کے موجود رہیں۔
پوئنٹر انسٹیٹیوٹ کی سینئر نائب صدر کیلی میک برائیڈ نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بحرانی حالات میں صحافیوں کے لیے انتہائی چوکنا رہنا اور ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کی سرکاری سطح پر تصدیق کرنا انتہائی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قسم کی غلطی کے بعد نیوز رومز کو اپنے رپورٹنگ کے عمل کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔
یہ واقعہ اس بات کی سنگین یاد دہانی ہے کہ کس طرح جذباتی اور مشکل وقت میں غلط معلومات تیزی سے پھیل کر جھوٹی امیدوں کو جنم دیتی ہیں اور بعد میں ان کے ٹوٹنے سے مزید مایوسی پھیلتی ہے۔