امریکہ کا حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ، لبنان نے جوابی خط میں ایسا کیا لکھا کہ امریکی سفیر بھی حیران رہ گئے؟

بیروت: امریکہ نے لبنان سے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جس پر لبنانی حکومت نے اپنا جوابی خط امریکی خصوصی سفیر تھامس بیراک کے حوالے کر دیا ہے۔ اگرچہ جواب کو ابھی تک عوامی نہیں کیا گیا، لیکن امریکی سفیر نے اسے ‘شاندار’ قرار دیتے ہوئے اس پر ‘ناقابل یقین حد تک اطمینان’ کا اظہار کیا ہے۔

یہ اہم پیشرفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب نومبر 2024 میں طے پانے والی جنگ بندی کے باوجود لبنان میں حزب اللہ کے مبینہ ٹھکانوں پر اسرائیلی حملے جاری ہیں، جن میں عام شہری بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔

**امریکی مطالبہ اور لبنان کا جواب**

امریکی سفیر تھامس بیراک 19 جون کو پیش کی گئی امریکی تجویز پر لبنانی حکومت کا سرکاری جواب وصول کرنے بیروت پہنچے تھے۔ جنگ بندی معاہدے کے تحت حزب اللہ کو جنوبی لبنان میں دریائے لیطانی کے جنوب سے اپنے جنگجوؤں کو ہٹانا تھا، تاہم معاہدے کی زبان مبہم رکھی گئی تھی۔ امریکہ اور اسرائیل اس کی تشریح یہ کر رہے ہیں کہ حزب اللہ کو پورے ملک میں مکمل طور پر غیر مسلح ہونا پڑے گا۔

لبنانی ایوان صدر کی جانب سے پیش کردہ جواب کو عام نہیں کیا گیا تاہم رپورٹس کے مطابق، لبنان نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کے دوران قبضے میں لیے گئے پانچ مقامات اور 2000 سے پہلے کے زیر قبضہ علاقوں سمیت تمام لبنانی علاقوں سے مکمل طور پر دستبردار ہو۔

لبنان نے امریکہ پر یہ بھی زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل پر جنگ بندی کی پاسداری کرنے، لبنانی قیدیوں کو واپس کرنے اور اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 پر عمل درآمد کے لیے دباؤ ڈالے۔

**دباؤ اور رکاوٹیں**

امریکی سفیر بیراک نے اشارہ دیا کہ لبنان کی حمایت اس بات پر منحصر ہوگی کہ وہ خطے کی ‘تیز رفتار تبدیلیوں’ کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرے۔ لبنان کو حالیہ اسرائیلی جارحیت کے بعد تعمیر نو کے لیے عالمی بینک کے مطابق 11 ارب ڈالر کی غیر ملکی امداد کی اشد ضرورت ہے، جسے امریکہ نے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے سے مشروط کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

دوسری جانب، حزب اللہ نے واضح کیا ہے کہ جب تک لبنانی سرزمین پر اسرائیلی قبضہ اور جارحیت جاری ہے، وہ ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ حزب اللہ کے نائب سربراہ نعیم قاسم نے حال ہی میں کہا، ”جب جارحیت جاری ہو تو ہم سے نرمی یا ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔“

اسرائیل کا 1978، 1982 اور گزشتہ سال لبنان پر حملہ کرنا بھی حزب اللہ کے عدم اعتماد کی ایک بڑی وجہ ہے۔

**اسرائیل کا کردار اور مستقبل**

اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو امریکی دباؤ کے سامنے جھکیں گے اور لبنان پر حملے روکیں گے۔ یہ واضح نہیں کہ بیراک کے دورہ بیروت کا واشنگٹن میں ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان ہونے والی ملاقات پر کوئی اثر ہوا ہے یا نہیں۔

لبنان کو امید ہے کہ امریکہ اسرائیل کو حملوں سے روکنے، جنگ بندی نافذ کروانے اور لبنانی ریاست کی حمایت کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا تاکہ حزب اللہ کے ہتھیاروں کو ریاستی کنٹرول میں لانے کے نازک کام کو مکمل کیا جا سکے اور شیعہ کمیونٹی کو قومی دھارے سے الگ تھلگ ہونے سے بچایا جا سکے۔

اپنا تبصرہ لکھیں