ایران کا بڑا کریک ڈاؤن، لاکھوں افغان مہاجرین کی وطن واپسی، کیا افغانستان ایک نئے بحران کی زد میں ہے؟

اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے مطابق جون کے اوائل سے اب تک تقریباً ساڑھے چار لاکھ افغان شہری ایران سے واپس آچکے ہیں۔ یہ واپسی تہران کی جانب سے غیر دستاویزی مہاجرین اور پناہ گزینوں کو ملک چھوڑنے کے لیے 6 جولائی کی ڈیڈلائن کے بعد ہوئی ہے۔

اس بڑے پیمانے پر واپسی نے افغانستان کے موجودہ چیلنجز میں مزید اضافہ کر دیا ہے، کیونکہ دہائیوں کے تنازعات کے بعد غریب ملک 2023 سے پاکستان اور ایران سے واپس آنے والوں کی لہروں کو اپنے اندر سمونے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے اور دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا کر رہا ہے۔

یو این ایچ سی آر کی رپورٹ کے مطابق، صرف اس سال 1.4 ملین سے زائد افراد ‘افغانستان واپس آئے ہیں یا انہیں واپس آنے پر مجبور کیا گیا’ ہے۔ ایران کی مئی کے آخر میں دی گئی ہدایت سے ممکنہ طور پر چالیس لاکھ غیر دستاویزی افغان متاثر ہو سکتے ہیں، جبکہ تہران کا دعویٰ ہے کہ ملک میں تقریباً چھ ملین افغان باشندے مقیم ہیں۔

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کے ترجمان کے مطابق، 1 جون سے 5 جولائی کے درمیان 449,218 افغان ایران سے واپس آئے، جس سے 2024 میں واپس آنے والوں کی کل تعداد 906,326 ہو گئی ہے۔

بہت سے واپس آنے والے افراد نے حکام کے دباؤ، گرفتاریوں، ملک بدری اور جلد بازی میں روانگی کی وجہ سے مالی نقصانات کی اطلاع دی ہے۔ بحران سے نمٹنے کی کوششوں کو غیر ملکی امداد میں نمایاں کٹوتیوں کی وجہ سے شدید دھچکا لگا ہے، جس کے بعد اقوام متحدہ، بین الاقوامی این جی اوز اور طالبان حکام کی جانب سے فنڈنگ میں اضافے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ یہ بڑے پیمانے پر واپسی افغانستان کو مزید غیر مستحکم کر سکتی ہے، جو پہلے ہی گہری غربت، بے روزگاری اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا کر رہا ہے۔ یو این ایچ سی آر نے جمعہ کو کہا کہ ‘افغانوں کو واپس جانے پر مجبور کرنا یا دباؤ ڈالنا خطے میں مزید عدم استحکام اور یورپ کی طرف نقل مکانی کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔’

اگرچہ طالبان حکام ایک ‘باوقار’ واپسی کے عمل کی وکالت کرتے ہیں، ایرانی میڈیا میں اکثر ‘غیر قانونی’ افغانوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ایران کے نائب وزیر داخلہ، علی اکبر پورجمشیدیان نے تسلیم کیا کہ اگرچہ ملک میں غیر دستاویزی افغان ‘قابل احترام پڑوسی اور دینی بھائی’ ہیں، لیکن ایران کی ‘صلاحیتوں کی بھی حدود ہیں’۔ انہوں نے اشارہ دیا کہ واپسی کا عمل ‘بتدریج نافذ کیا جائے گا’۔

بہت سے افغان روزگار کے لیے ایران گئے تھے اور افغانستان میں اپنے خاندانوں کو اہم ترسیلات زر بھیجتے تھے۔ واپس آنے والے ایک شہری احمد محمدی نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو ہرات صوبے کے ایک استقبالیہ مرکز میں بتایا، ‘اگر مجھے یہاں کوئی ایسی نوکری مل جائے جو ہمارے روزمرہ کے اخراجات پورے کر سکے تو میں یہیں رہوں گا۔ لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہوا تو ہمیں دوبارہ ایران، پاکستان یا کسی دوسرے ملک جانے پر مجبور ہونا پڑے گا۔’

اپنا تبصرہ لکھیں