سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) نے کہا ہے کہ وہ ‘بھارت میں جاری پریس سنسرشپ پر شدید تشویش’ میں مبتلا ہے، کیونکہ نئی دہلی نے اسے دو ہزار تین سو سے زائد اکاؤنٹس بلاک کرنے کا حکم دیا ہے جن میں خبر رساں ادارے رائٹرز کے دو ہینڈلز بھی شامل ہیں۔
اتوار کو ایکس نے بھارت میں رائٹرز نیوز کا اکاؤنٹ بحال کر دیا تھا، جس کے ایک دن بعد مبینہ طور پر بھارتی حکومت نے قانونی مطالبے کا حوالہ دیتے ہوئے اسے معطل کرنے کا کہا تھا۔ اس کے علاوہ دیگر کئی بلاک شدہ اکاؤنٹس بھی بحال کر دیے گئے، جبکہ نئی دہلی نے اس کارروائی میں اپنے کردار سے انکار کیا ہے۔
منگل کو ارب پتی ایلون مسک کی کمپنی ایکس نے ایک پوسٹ میں کہا کہ بھارتی حکومت نے 3 جولائی کو انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) ایکٹ کے سیکشن 69 اے کے تحت بھارت میں 2,355 اکاؤنٹس بلاک کرنے کا حکم دیا تھا۔
ایکس نے کہا، ‘حکم کی عدم تعمیل پر مجرمانہ ذمہ داری کا خطرہ تھا۔ وزارتِ الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے بغیر کوئی جواز فراہم کیے ایک گھنٹے کے اندر فوری کارروائی کا مطالبہ کیا، اور یہ بھی کہا کہ اکاؤنٹس کو اگلے نوٹس تک بلاک رکھا جائے۔’ بیان میں مزید کہا گیا کہ ‘عوامی احتجاج کے بعد، حکومت نے ایکس سے رائٹرز اور رائٹرز ورلڈ کو ان بلاک کرنے کی درخواست کی۔’
واضح رہے کہ 2000 کا آئی ٹی قانون حکومتی عہدیداروں کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے ایسا مواد ہٹانے کا مطالبہ کرنے کی اجازت دیتا ہے جسے وہ مقامی قوانین کی خلاف ورزی سمجھتے ہوں، جس میں قومی سلامتی یا امن عامہ کو خطرہ جیسے معاملات شامل ہیں۔
ایکس اور بھارتی حکومت کے درمیان مواد ہٹانے کی درخواستوں پر طویل عرصے سے اختلافات چلے آ رہے ہیں۔ مارچ میں، کمپنی نے وفاقی حکومت کے خلاف ایک نئی سرکاری ویب سائٹ پر مقدمہ دائر کیا تھا، جس کے بارے میں کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ ‘لاتعداد’ سرکاری اہلکاروں کو مواد ہٹانے کے اختیارات دیتی ہے۔ یہ کیس ابھی تک جاری ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ 2014 میں ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت میں آزادی اظہار اور آزاد صحافت کو خطرات لاحق ہیں۔ نئی دہلی نے بے امنی کے دوران اکثر انٹرنیٹ پر مکمل پابندیاں عائد کی ہیں، جیسا کہ کشمیر اور ریاست منی پور میں دیکھا گیا ہے۔
منگل کو اپنی پوسٹ میں، ایکس نے کہا کہ وہ سنسرشپ پر تمام دستیاب قانونی آپشنز پر غور کر رہا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ‘قانونی چارہ جوئی کی اس کی صلاحیت بھارتی قوانین کی وجہ سے محدود ہے’۔ کمپنی نے متاثرہ صارفین پر زور دیا کہ وہ ‘عدالتوں کے ذریعے قانونی چارہ جوئی کریں’۔