برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے غزہ میں انسانی بحران پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر فلسطینی علاقے میں جنگ ختم کرنے کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ نہیں ہوتا تو برطانیہ اسرائیل کے خلاف مزید کارروائی کر سکتا ہے۔
منگل کو پارلیمنٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے، لیمی نے غزہ میں امریکہ اور اسرائیل کے حمایت یافتہ ایک گروپ، جسے ‘غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن’ (GHF) کہا جاتا ہے، کے ذریعے امداد کی تقسیم کے نئے طریقہ کار پر بھی تنقید کی۔
لیمی نے کہا، “ہم نے بہت واضح کر دیا ہے کہ ہم اس امدادی فاؤنڈیشن کی حمایت نہیں کرتے جو قائم کی گئی ہے۔ یہ اچھا کام نہیں کر رہی۔ بہت سے لوگ فاقہ کشی کے قریب ہیں، بہت سے لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ ہم نے عالمی سطح پر اس نظام کی مذمت کی قیادت کی ہے۔”
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران جی ایچ ایف سے امداد حاصل کرنے کی کوشش کے دوران سینکڑوں فلسطینی اسرائیلی فائرنگ کا نشانہ بن چکے ہیں۔
ایک قانون ساز کے اس سوال پر کہ کیا برطانوی حکومت غزہ کی “ناقابل برداشت” صورتحال جاری رہنے پر اسرائیل کے خلاف اقدامات کرے گی، لیمی نے جواب دیا: “جی ہاں، ہم کریں گے۔”
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ، برطانیہ نے آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور ناروے کے ساتھ مل کر مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی برادریوں کے خلاف تشدد پر اکسانے کے الزام میں اسرائیلی وزراء ایتمار بن گویر اور بیزالیل سموٹرچ پر پابندیاں عائد کی تھیں۔
اس سے چند ہفتے قبل، برطانیہ نے غزہ کی ناکہ بندی پر اسرائیل کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کے لیے مذاکرات بھی معطل کر دیے تھے، اور گزشتہ سال لندن نے اسرائیل کو کچھ ہتھیاروں کی برآمدات بھی روک دی تھیں۔
تاہم، کچھ فلسطینی حقوق کے حامیوں نے ان اقدامات کو علامتی قرار دیتے ہوئے تنقید کی ہے کہ یہ اسرائیل پر بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزیوں کے سنگین نتائج عائد کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
ڈیوڈ لیمی نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے معاملے پر کہا کہ لندن چاہتا ہے کہ فلسطین کی تسلیم شدگی دو ریاستی حل کی جانب ٹھوس پیش رفت کا حصہ ہو، نہ کہ صرف ایک علامتی اشارہ۔ تاہم، خارجہ امور کمیٹی کی چیئرپرسن ایملی تھورنبیری نے خبردار کیا کہ اگر برطانیہ تسلیم کرنے میں تاخیر کرتا رہا تو بستیوں کی توسیع کی وجہ سے تسلیم کرنے کے لیے کچھ باقی نہیں بچے گا۔