سانسیں تھما دینے والی پیشرفت! غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ چند قدم دور، امریکی ایلچی کا تہللہ خیز دعویٰ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک معاون نے اشارہ دیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ قریب ہے اور واشنگٹن کو امید ہے کہ اس ہفتے کے آخر تک ایک معاہدہ حتمی شکل اختیار کر لے گا۔

منگل کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے خصوصی امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کہا، ”ہم اس وقت بالواسطہ بات چیت میں ہیں، ہمارے پاس چار مسائل تھے، اور اب دو دن کی بات چیت کے بعد ہم صرف ایک مسئلے پر رہ گئے ہیں۔“

انہوں نے مزید کہا، ”لہذا ہمیں امید ہے کہ اس ہفتے کے آخر تک ہمارے پاس ایک معاہدہ ہوگا جو ہمیں 60 دن کی جنگ بندی میں لے آئے گا۔“

وٹکوف نے کہا کہ اس معاہدے کے تحت 10 اسرائیلی قیدیوں اور نو کی لاشوں کی رہائی عمل میں آئے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کا خیال ہے کہ یہ معاہدہ ”غزہ میں دیرپا امن کا باعث بنے گا“۔

اس سے قبل منگل کو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے واشنگٹن ڈی سی میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ اگرچہ اسرائیل کو ”ابھی بھی غزہ میں کام ختم کرنا ہے“، لیکن مذاکرات کار ”یقینی طور پر“ جنگ بندی پر کام کر رہے ہیں۔

ٹرمپ اور نیتن یاہو نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں ایک ساتھ عشائیہ کیا، یہ اسرائیلی رہنما کا 20 جنوری کو صدر کے دوسری مدت شروع کرنے کے بعد تیسرا امریکی دورہ ہے۔ دونوں رہنماؤں کی منگل کو دوبارہ ملاقات متوقع ہے۔

امریکی صدر نے منگل کو وائٹ ہاؤس میں کابینہ کے اجلاس میں صحافیوں کو بتایا، ”وہ بعد میں آرہے ہیں۔ ہم تقریباً خصوصی طور پر غزہ پر بات کرنے جا رہے ہیں۔ ہمیں اس مسئلے کو حل کرنا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے، اور وہ اسے حل کرنا چاہتے ہیں، اور میں بھی اسے حل کرنا چاہتا ہوں، اور مجھے لگتا ہے کہ دوسرا فریق بھی یہی چاہتا ہے۔“

قطر نے منگل کو تصدیق کی کہ حماس اور اسرائیلی وفود جنگ بندی کی تجویز پر بات چیت کے لیے دوحہ میں موجود ہیں۔ قطری وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے کہا کہ ”اس وقت مثبت بات چیت ہو رہی ہے۔ ثالثی ٹیمیں – قطری اور مصری – اس بات کو یقینی بنانے کے لیے چوبیس گھنٹے کام کر رہی ہیں کہ بات چیت کے لیے فریم ورک پر کچھ اتفاق رائے قائم ہو۔“

واضح رہے کہ غزہ پر اسرائیل کی جنگ میں 57,500 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، جبکہ انکلیو کی تقریباً پوری آبادی اندرونی طور پر بے گھر ہو چکی ہے اور لاکھوں افراد فاقہ کشی کے دہانے پر ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین اور انسانی حقوق کے گروپوں نے غزہ میں اسرائیل کی فوجی مہم کو نسل کشی قرار دیا ہے۔

نیتن یاہو نے پیر کو یہ بھی تجویز دی کہ امریکہ اور اسرائیل غزہ سے فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں – یہ ایک ایسا خیال ہے جو سب سے پہلے ٹرمپ نے فروری میں پیش کیا تھا۔ اسرائیلی حکام اس اقدام کو علاقے سے ”رضاکارانہ ہجرت“ کی حوصلہ افزائی کی کوشش کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ تاہم، انسانی حقوق کے حامیوں کا کہنا ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کو ہٹانا، جو کہ نسلی صفائی کے مترادف ہوگا، رضاکارانہ نہیں سمجھا جا سکتا۔

ممتاز قانونی ماہر رالف وائلڈ نے الجزیرہ کو بتایا کہ غزہ میں وسیع پیمانے پر تباہی، محاصرے اور روزانہ حملوں کے ساتھ، وہاں رہنے یا جانے کے آزاد انتخاب کا تصور ”ایک جھوٹ ہے“۔ انہوں نے کہا، ”یہ جبری نقل مکانی ہے کیونکہ یہ کوئی ایسا انتخاب نہیں ہے جو آزادانہ طور پر کیا جائے۔“

اپنا تبصرہ لکھیں